دوسری آیت :۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ۔
واذا جاء امر من الامن او الخوف اذاعوا بہ ولو ردوہ الی الرسول والی اولی الامر
منھم لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم {پارہ 5 ۔۔آل عمران}
منھم لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم {پارہ 5 ۔۔آل عمران}
جب ان کے پاس امن یا خوف کا کوئی واقعہ پہنچتا ہے تو وہ اس کو مشہور کرتے ہیں اور اگر وہ اسکو جناب رسول اللہ{صلی اللہ علیہ وسلم } اور اولی الامر کی طرف لوٹاتے {تو بہتر ہوتا }تاکہ جو اس کی حقیقت اور تہ کو پہنچ سکتے ہیںوہ اس کو جان لیتے {پھر جیسا مناسب سمجھتے کرتے }
اس آیت کریمہ میں عوام الناس کو تنبیہ کی گئی ہے کہ ہر بات ان کے سمجھنے کی نہیں ہوتی ۔ لہذا جب بھی وہ کسی امن یا خوف کی بات سنیں تو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اولی الامر سے اس کی بابت پوچھ لیا کریں۔پھر جیسا وہ مناسب خیال فرمائیں گے بتلا دیں گے پھر عوام اس پھر عمل کریں۔
مندرجہ زیل امور پر غور کریں ۔
مندرجہ زیل امور پر غور کریں ۔
اگر چہ آیت میں امن اور خوف کا ذکر ہے ۔ لیکن ان کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ امن اور خوف ان کا پس منظر اور ان کی تشہیر بسا اوقات امن عامہ کیلئے مخل ہوتی ہے ۔ اور ہر ادمی ان کے نتائج تک نہیں پہنچ سکتا ۔ اس لئے ضروری ٹھہرا کہ ایسے اہم کاموں میں ہرآدمی اپنی سمجھ سے کام نہ لے ۔ بلکہ کسی سمجھدار سے جو حقیقت آشنا ہو پوچھ لے ۔ اسی طرح دین کا ہر مسئلہ اور اسکی حقیقت بھی ہر ادمی کی سمجھ سے بالا تر ہوتی ہے اس لیے ایسے مسائل میں ایسے لوگوں سے جو حقیقت سے آگاہ ہوں پوچھنا ضروری ٹھہرا ۔
{2} اس ایت میں اولی الامر ایسے حضرات کو کہا گیا ہے جن میں استنباط اور اجتہاد کا مادہ موجود ہو ۔ تاکہ ضرورت کے وقت وہ جزئیات کو اصول کی طرف اور غیر منصوص مسائل کو احکام منصوصہ کی طرف لوٹا کر معاملہ کی نزاکت کو معلوم کرسکیں اور یہ کام صرف حضرات فقہاء کرام اور مجتہدین کا ہے ۔چنانچہ امام ابوبکر الجصاص الرازی رح اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ۔
فقد حوت ھذہ الآیۃ معانی منھا ان فی احکام الحوا دث مالیس بمنصوص علیہ بل مدلول علیہ ومنھا ان علی العلماء استنباطہ والتوصل الی معرفتہ بردہ الی نظائرہ و منھا ان العامی علیہ تقلید العلماء فی احکام الحوادث الخ {احکام القران ص 215 ج 2}
ترجمہ :۔بیشک یہ آیت کریمہ متعدد معانی اور مطالب پر مشتمل ہے ایک یہ کہ پیش آمدہ مسائل کے احکام ایسے بھی ہیں جو صراحۃ ثابت نہیں بلکہ دلیل سے ان کی طرف رہنمائی ہوتی ہے اور دوسرا یہ کہ علماء پر ان کا استنباط اور منصوص نظائر لوٹا کر ان کی معرفت تک توصل لازم ہے اور تیسرا یہ کہ عامی پر پیش امدہ مسائل کے احکام میں علماء کی تقلید لازم ہے الخ
ترجمہ :۔بیشک یہ آیت کریمہ متعدد معانی اور مطالب پر مشتمل ہے ایک یہ کہ پیش آمدہ مسائل کے احکام ایسے بھی ہیں جو صراحۃ ثابت نہیں بلکہ دلیل سے ان کی طرف رہنمائی ہوتی ہے اور دوسرا یہ کہ علماء پر ان کا استنباط اور منصوص نظائر لوٹا کر ان کی معرفت تک توصل لازم ہے اور تیسرا یہ کہ عامی پر پیش امدہ مسائل کے احکام میں علماء کی تقلید لازم ہے الخ
یہ عبارت بھی اپنے مفہوم و مدلول کے اعتبار سے بالکل واضح ہے ۔
حضرت مولانا عبدالحق حقانی {المتوفی 1332ھ} فرماتے ہیں کہ ۔
ہاں یہ بات ضروری ہے کہاستنباط کرنا ہر ایک کا کام نہیں اور اس کے شروط بھی ہیں اور استنباط کو فقہاء قیاس بھی کہتے ہیں پس جو استنباط نہ کرسکتا ہو اس کو اس مسئلہ میں جو اس کو کتاب و سنت و اجماع میں نہ ملے تو مستنبط یعنی مجتہد سے پوچھ کر عمل کرنا چاہئے اور اسی کوتقلید شرعی کہتے ہیں جس کی ضرورت سمجھی گئی {تفسیر حقانی ص 25 ج 5}
ہاں یہ بات ضروری ہے کہاستنباط کرنا ہر ایک کا کام نہیں اور اس کے شروط بھی ہیں اور استنباط کو فقہاء قیاس بھی کہتے ہیں پس جو استنباط نہ کرسکتا ہو اس کو اس مسئلہ میں جو اس کو کتاب و سنت و اجماع میں نہ ملے تو مستنبط یعنی مجتہد سے پوچھ کر عمل کرنا چاہئے اور اسی کوتقلید شرعی کہتے ہیں جس کی ضرورت سمجھی گئی {تفسیر حقانی ص 25 ج 5}
امام ابوبکر الجصاص الرازی رح غیر منصوص حوادث میں قیاس اور اجتہاد کے جائز ہونے پر قران کریم کی چند آیات اور بعض احادیث کا حوالہ دیتے ہیں اور آخر میں فرماتے ہیں۔
ونظیر ذلک من الاخبار الموجبۃلجواز الاجتہاد فی امور الدین لا توقیف فیھا و لا اجماع اکثر من ان تحصی وفیما ذکرنا کفایۃ لمن وفق لرشدہ {الفصول فی الاصول ابواب الاجتہاد والقیاس للجصاص الرازی ڑح ص72 المکتبۃ العلمیۃ لاھور}
ونظیر ذلک من الاخبار الموجبۃلجواز الاجتہاد فی امور الدین لا توقیف فیھا و لا اجماع اکثر من ان تحصی وفیما ذکرنا کفایۃ لمن وفق لرشدہ {الفصول فی الاصول ابواب الاجتہاد والقیاس للجصاص الرازی ڑح ص72 المکتبۃ العلمیۃ لاھور}
ترجمہ :
اور ان کی مانند وہ احادیث جودین کیلئے ایسے امور کے بارے جن میں وقوف اور اطلاع نہ مل سکی ہو اور ان میں اجماع بھی نہ ہو اجتہاد کے جواز پر دال ہیں اور وہ اس کثرت سے ہیں کہ ان کا شمار بھی بیان نہیں کیا جاسکتا اور ہم نے جو بیان کی ہیں جس کو بھلائی کی توفیق نصیب ہے اس کیلئے وہ کافی ہیں ۔
یہ عبارت بھی اپنے مدلول میں بالکل واضح ہے کہ غیر منصوص مسائل میں قیاس اور اجتہاد کے جائز ہونے پر بے شمار احادیث دال ہیں ۔
یہ عبارت بھی اپنے مدلول میں بالکل واضح ہے کہ غیر منصوص مسائل میں قیاس اور اجتہاد کے جائز ہونے پر بے شمار احادیث دال ہیں ۔
امام محمد بن احمد السرسخی الحنفی {المتوفی 483 ھ} فرماتے ہیں کہ
انہ مامن حادثۃ الا وفیھا حکم للہ تعالی من تحلیل او تحریم او ایجاب او اسقاط و معلوم ان کل حادثۃ لا یوجد فیھا نص فالمنصوص معدودۃ متناھیۃ ولا نھایۃ لما یقع من الحوادث الی قیام الساعۃ و فی تسمیۃ حادثۃ اشارۃ الی انہ لا نص فیھا فان ما فیہ النص یکون اصلا معھودا و کذلک الصحابہ مااشتغلوا باعتماد نص فی کل حادثہ طلبا او روایۃ فعرفنا انہ لا یوجد نص فی کل حادثۃ {اصول سرخسی ص 193 ج 2 طبع مصر }
کوئی مسئلہ ایسا نہیں کہ جس میں اللہ تعالی کی طرف سےتحلیل یا تحریم ایجاب یا ذمہ کو فارغ کرنے کا خوئی حکم نہ ہو اور یہ بات بالکل عیاں ہے کہ ہر مسئلہ میں نص نہیں پائی جاتی منصوص مسائل تو معدود اور متناہی ہیں اور قیامت تک جو مسائل پیش آنے والے ہیں ان کی کوئی انتہاء نہیں اور لفظ حادثہ میں اشارہ ہے کہ اس میں کوئی نص نہیں کیونکہ جس میں نص موجود ہو وہ تو معہود اصل ہے اور اسی طرح حضرات صحابہ کرام رض بھی ہر پیش آمدہ مسئلہ میں طلبا یا روایۃ نص ہی پر ٹیک نہیں لگاتے تھے اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ ہر مسئلہ میں نص موجود نہیں
انہ مامن حادثۃ الا وفیھا حکم للہ تعالی من تحلیل او تحریم او ایجاب او اسقاط و معلوم ان کل حادثۃ لا یوجد فیھا نص فالمنصوص معدودۃ متناھیۃ ولا نھایۃ لما یقع من الحوادث الی قیام الساعۃ و فی تسمیۃ حادثۃ اشارۃ الی انہ لا نص فیھا فان ما فیہ النص یکون اصلا معھودا و کذلک الصحابہ مااشتغلوا باعتماد نص فی کل حادثہ طلبا او روایۃ فعرفنا انہ لا یوجد نص فی کل حادثۃ {اصول سرخسی ص 193 ج 2 طبع مصر }
کوئی مسئلہ ایسا نہیں کہ جس میں اللہ تعالی کی طرف سےتحلیل یا تحریم ایجاب یا ذمہ کو فارغ کرنے کا خوئی حکم نہ ہو اور یہ بات بالکل عیاں ہے کہ ہر مسئلہ میں نص نہیں پائی جاتی منصوص مسائل تو معدود اور متناہی ہیں اور قیامت تک جو مسائل پیش آنے والے ہیں ان کی کوئی انتہاء نہیں اور لفظ حادثہ میں اشارہ ہے کہ اس میں کوئی نص نہیں کیونکہ جس میں نص موجود ہو وہ تو معہود اصل ہے اور اسی طرح حضرات صحابہ کرام رض بھی ہر پیش آمدہ مسئلہ میں طلبا یا روایۃ نص ہی پر ٹیک نہیں لگاتے تھے اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ ہر مسئلہ میں نص موجود نہیں
اس عبارت سے بھی واضح ہوگیا کہ تمام پیش آمدہ مسائل میں نص موجود نہیں ہے۔
اجتہاد ہر کس و ناکس کا کام نہیں :۔سابق عبارات اور حولوں سے یہ بات تو بالکل آشکارا ہوگئی ہے کہ پیش آمدہ غیرمنصوص مسائل میں قیاس اور اجتہاد تا قیامت جائز ہے اور اس سے کوئی مخللص اور چارہ نہیں لیکن اجتہاد کرنا ہر کہ و مہ کاکام نہیں اس کے لیے اصول فقہ کی کتابوں میں اہم اور ضروری شرائط بیان کی گئی ہیں اور اس سلسلہ میں درسی اور متداول کتابوں مثلا نورالانوار ۔التلویح والتوضیح ۔مسلم الثبوت ۔فواتح الرحموت ۔ التحریر ۔کشف الاسرار ۔منہاج لاصول غایۃ التحقیق وغیرہ کے علاوہ احکام لقران لابی بکر الجصاص رح ص 263 ج2 الاصول فی اصول الاحکام الآمدی رح ص219 ج4 المستصفی للغزالی رح ص 236 ج2ور اصول الفقہ لابی زہرۃ ص 236 وغیرہ کتابوں میں خاصی تفصیل موجود ہے ۔ہم اختصار کے پیش نظر صرف دو ہی حوالے عرض کرتے ہیں ۔
اجتہاد ہر کس و ناکس کا کام نہیں :۔سابق عبارات اور حولوں سے یہ بات تو بالکل آشکارا ہوگئی ہے کہ پیش آمدہ غیرمنصوص مسائل میں قیاس اور اجتہاد تا قیامت جائز ہے اور اس سے کوئی مخللص اور چارہ نہیں لیکن اجتہاد کرنا ہر کہ و مہ کاکام نہیں اس کے لیے اصول فقہ کی کتابوں میں اہم اور ضروری شرائط بیان کی گئی ہیں اور اس سلسلہ میں درسی اور متداول کتابوں مثلا نورالانوار ۔التلویح والتوضیح ۔مسلم الثبوت ۔فواتح الرحموت ۔ التحریر ۔کشف الاسرار ۔منہاج لاصول غایۃ التحقیق وغیرہ کے علاوہ احکام لقران لابی بکر الجصاص رح ص 263 ج2 الاصول فی اصول الاحکام الآمدی رح ص219 ج4 المستصفی للغزالی رح ص 236 ج2ور اصول الفقہ لابی زہرۃ ص 236 وغیرہ کتابوں میں خاصی تفصیل موجود ہے ۔ہم اختصار کے پیش نظر صرف دو ہی حوالے عرض کرتے ہیں ۔
{1}امام فخرالاسلام علی بن محمد البزدوی الحنفی رح {المتوفی 482ھ} نہایت ہی مختصر الفاظ میں اجتہاد کی شرط یہ تحریر فرماتے ہیں کہ ۔
اماشرطہ فان یحوی علم الکتاب بمعانیہ وعلم السنۃ بطرقھا ومتونھا ووجوہ معانیھا وان یعرف وجوہ القیاس اھ {کنزالوصول الی معرفۃ الاصول ص 278 طبع مصر }
اجتہاد کی شرط یہ ہے کہ مجتہد کتاب اللہ کے معانی اور حدیث کی اسانید اور متون اور ان کے معانی کے طریقوں کے علم پر حاوی ہو اور یہ کہ قیاس اور وجوہ کو بھی جانتا ہو
اماشرطہ فان یحوی علم الکتاب بمعانیہ وعلم السنۃ بطرقھا ومتونھا ووجوہ معانیھا وان یعرف وجوہ القیاس اھ {کنزالوصول الی معرفۃ الاصول ص 278 طبع مصر }
اجتہاد کی شرط یہ ہے کہ مجتہد کتاب اللہ کے معانی اور حدیث کی اسانید اور متون اور ان کے معانی کے طریقوں کے علم پر حاوی ہو اور یہ کہ قیاس اور وجوہ کو بھی جانتا ہو
یعنی مجتہد کیلئے یہ ضروری ہے او ر اجتہاد کی یہ بنیادی شرط ہے کہ مجتہد کتاب اللہ کے معانی پر عبور رکھتا ہو اور حدیث کی اسانید اور متون پر بھی اس کا علم حاوی ہو اور اخذ معانی مثلا عبارۃ النص ۔ اشارۃ النص دلالۃ النص اور اقتضاء النص وغیرہ کے وجوہ کوبھی جانتا ہو اور قیاس کے وجوہ کو بھی {جو قیاس کے باب میں مذکور ہیں }جانتا ہو ۔ظاہر امر ہے کہ جس نے نہ تو کسی ماہر استاد سے قران کریم کے باقاعدہ معانی پڑھے ہوں اور نہ علوم آلیہ سے شناسائی حاصل کی ہو ۔اور نہ حدیث کی سند اور معنی کو پڑ ھا ہو اور نہ اصول تفسیر اور اصول حدیث سے واقفیت حاصل کی ہو اور نہ اصول فقہ اور قیاس کےوجوہ کو پڑھا ہو محض بعض تراجم پر نگاہ جمالی ہو وہ بھلا مجتہد کیسے بن سکتا ہے ؟ وہ روایتی عالم ہو یا جج یا وکیل ہو شرعی اجتہاد کے میدان کا ہر گز شہسوار نہیں ہے وہ ضلوا فاضلوا کا مصداق تو ہوسکتا ہےلیکن مجتہد ہرگز نہیں ہوسکتا ۔
{2}:۔امام عبدالکریم شہرستانی {المتوفی 548ھ} اجتہاد کی شرائط پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
شرائط الاجتہاد {۱} معرفۃ قدر صالح من اللغۃ والتمیز بین الالفاظ الوضعیۃ والاستعاریۃ والنص والظاہر والعام والخاص والمطلق والمقید والمجمل والمفصل وفحوی الخطاب ومفہوم الکلام {۲}معرفۃ تفسیر القران خصوصا ما یتعلق بالاحکام {۳} ثم معرفۃ الاخبار بمتونہا و اسانیدہا والاحاطۃ باحوال النقلۃ والرواۃ {۴}ثم معرفۃ مواقع اجماع الصحابۃ رض والتابعین و تابعی التابعین من السلف الصالحین حتی لا یقع اجتہادہ فی مخالفۃ الاجماع ۔{۵}ثم التہدی الی مواضع الاقیسۃ وکیفیۃ النظر والتردد فیہا الخ [الملل والنخل ص 200 ج 1]
شرائط الاجتہاد {۱} معرفۃ قدر صالح من اللغۃ والتمیز بین الالفاظ الوضعیۃ والاستعاریۃ والنص والظاہر والعام والخاص والمطلق والمقید والمجمل والمفصل وفحوی الخطاب ومفہوم الکلام {۲}معرفۃ تفسیر القران خصوصا ما یتعلق بالاحکام {۳} ثم معرفۃ الاخبار بمتونہا و اسانیدہا والاحاطۃ باحوال النقلۃ والرواۃ {۴}ثم معرفۃ مواقع اجماع الصحابۃ رض والتابعین و تابعی التابعین من السلف الصالحین حتی لا یقع اجتہادہ فی مخالفۃ الاجماع ۔{۵}ثم التہدی الی مواضع الاقیسۃ وکیفیۃ النظر والتردد فیہا الخ [الملل والنخل ص 200 ج 1]
ترجمہ :۔
اجتہاد کی شرطیں یہ ہیں {۱} بقدر ضرورت لغت {عربیہ } کی معرفت ہو اور الفاظ وضعیہ اور استعاریہ اور نص اور ظاہر اور عام اور خاص اور مطلق اور مقید اور مجمل اور مفصل اور فحوائے خطاب اور مفہوم کلام میں تمیز کرنے کی اہلیت ہو ۔{۲} قران کریم کی تفسیر کی معرفت ہو خصوصا جو احکام سے متعلق ہے {۳} پھر احادیث کی ان کی اسانید اور متون کے ساتھ معرفت اور ناقلین اور روات کے احوال کا احاطہ {۴} پھر حضرات صحابہ کرام رج تابعین اور تبع تابعین وغیرہم سلف صالحین کے اجماع کے مواقع کی معرفت تاکہ مجتہد کا اجتہاد اجماع کے خلاف واقع نہ ہو {۵}پھر قیاسات کے مواقع اور استدلال کی کیفیت اور ان میں غور وفکر کرنے کے مواقع کی شناسائی اور ہدایت ہو ۔
قارئین کرام یہ ہیں اجتہاد کے لیے مختصر سی شرطیں جس شخص نے نہ تو تفسیر وحدیث باقاعدگی سے پڑھی ہو اور نہ علم لغت عربیہ اور اصول فقہ سے واقفیت رکھتا ہو اور نہ حضرات سلف صالحین کے اجماع کے مواقع کو ان کے مآخذ سے جانتا ہو اور نہ قیاس کے طرق پر مطلع ہو صرف بعض کتابوں کے خلاصے اور تراجم پڑھ لیے ہوں تو وہ کس طریقے سے اجتہاد کا دعوی کرسکتا ہے ؟ یا علمی طور پر اسکا اہل ہوسکتا ہے ؟ راقم اثیم نے بحمداللہ تعالی پورے سولہ سال درس نظامی کا مکمل نصاب پڑھا ہے اور پھر اڑتالیس سال سے پڑھا رہا ہے اور درس نظامی کی کوئی کتاب ایسی نہیں جو کئی کئی بار نہ پڑھائی ہو لیکن جس چیز کا نام علمی طور پر اجتہاد ہے راقم اثیم اپنے آپ کو واللہ باللہ اس کا کسی طرح بھی اہل نہیں سمجھتا قدر وسعت صرف کتابوں کے حوالے دے سکتا ہے اور بس مگر نہایت افسوس ہے کہ اجتہادی علوم وفنون تو درکنار جس شخص نے درس نظامی یا اس سے ملتا جلتا نصاب جس سے اصلی زبان میں علوم عربیہ کے سمجھنے کی استعداد پیدا ہوتی ہے اساتذہ سے نہ پڑھا ہو صرف بعض کتابوں کے خلاصے اور تراجم دیکھے ہوں اور وکالت پاس کرلی ہو تو بھلا وہ کیونکر اجتہاد کا اہل ہوسکتا ہے ؟ الغرض پیش آمدہ غیرمنصوص مسائل میں تا قیامت اجتہاد جاری اور جائز ہے لیکن مجتہد کیلیے شرائط بھی ہیں نہ یہ کہ ہر کہ و مہ اجتہاد کرسکتا ہے
ع:۔ نہ ہر کہ سر بتراشد قلندری داند { یعنی یہ نہیں کہ جو شخص سر منڈاتا ہے وہ قلندری بھی جانتا ہے : از کاتب }
{3} قیاس ۔ اجتہاد اور استنباط کے اثبات پر جہاں اور بہت سے براہین ہیں وہاں ایک دلیل یہ آیت مذکورہ بھی ہے ۔ اگر قیاس وغیرہ درست نہ ہوتا تو اللہ تعالی امن اور خوف کے معاملے کو ایسے اولی الامر کی طرف جو استنباط کرسکتے ہوں لوٹانے کا حکم نہ دیتے ۔چنانچہ امام ابوبکر الجصاص الرازی رح ہی لکھتے ہیں ،
وفی ہذہ الآیۃ دلالۃ علی وجوب القول بالقیاس واجتہاد الرای فی احکام الحوادث {احکام القران ص262 ج 2}
وفی ہذہ الآیۃ دلالۃ علی وجوب القول بالقیاس واجتہاد الرای فی احکام الحوادث {احکام القران ص262 ج 2}
اس آیت سے نئے نئے مسائل میں قیاس اور رائے سے اجتہاد کرنے کا مسئلہ اچھی طرح واضح ہوگیا ہے ۔
{4}اگر اولی الامر کی بات حجت نہ ہوتی خصوصا جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں تو قران کریم نے کیوں اولی الامر کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے ؟ اور یہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے کسی کی بات کو {خواہ دینی ہو یا دنیاوی جب کہ اصول دین کے موافق ہو}قبول کرنا شرک فی الرسالت نہیں تو حضرات ائمہ مجتہدین کی بات کیوں شرک ہے ؟
{5} اس آیت میں اولی الامر سے اگر چہ بعض حضرات نے امراء سرایا مراد لیے ہیں {دیکھیے کشاف ص 376 ج 1} لیکن جمہور حضرات مفسرین کے نزدیک اولی الامر سے مراد اصحاب فہم حضرات ہی مرادہیں
چنانچہ علامہ آلوسی رح لکھتے ہیں کہ
وہم کبار الصحابۃ البصراء فی الامور وہوالذی ذھب الیہ الحسن و قتادۃ وخلق کثیر {روح المعانی ص85 ج 5}
وہم کبار الصحابۃ البصراء فی الامور وہوالذی ذھب الیہ الحسن و قتادۃ وخلق کثیر {روح المعانی ص85 ج 5}
اولی الامر سے مراد کبار صحابہ کرام ہیں جو معاملات میں بصیرت رکھتے تھے یہی تفسیر حضرت حسن بصری رح حضرت قتادہ رح اور بہت سے مفسرین نے کی ہے
اور اگر امراء جیوش بھی مراد ہوں تو بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ امیر کی اطاعت میں بھی دینی پہلو ہی ہوتا ہے تو مسند رسول پر وہ بھی بیٹھے ہیں
اور اگر امراء جیوش بھی مراد ہوں تو بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ امیر کی اطاعت میں بھی دینی پہلو ہی ہوتا ہے تو مسند رسول پر وہ بھی بیٹھے ہیں
{6} چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت حضرات صحابہ کرام ہی موجود تھے اس لیے کبار صحابہ کرام کا ذکر ہی کیا گیا ہے ۔ ورنہ ان کی تخصیص نہیں ۔ہر زمانہ میں اصحاب بصیرت لوگ اس آیت کا مصداق ہیں ۔
الحاصل مشکل ترین مواقع ،مقامات اور مسائل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں بھی اور بعد کو بھی دیگر اصحاب بصیرت اور اہل استنباط کی طرف رجوع کرنا شرک نہیں ۔ ورنہ لازم آئے گا کہ قران کریم بھی شرک فی الرسالت کی تعلیم دیتا ہے {معاذاللہ تعالی } بلکہ مراد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے اصول کے ماتحت اصحاب بصیرت کا حکم ماننا ۔ ان کی تقلید کرنا دراصل آپ ص ہی کی اطاعت میں داخل ہے ۔جیسا کہ ہم پہلے بخاری شریف کی حدیث سے نقل کرچکے ہیں کہ جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی ۔ اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی ۔ اور نواب صدیق حسن خان صاحب کے حوالے سے بھی ہم نقل کر آئے ہیں کہ علماء کی اطاعت کوئی الگ چیز نہین بلکہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی اطاعت ہے ۔
اور غیر مقلد عالم مولانا محمد صاحب جوناگڑھی لکھتے ہیں کہ ۔
لفظ اولی الامر جمع ہے اور تقلید شخصی مفرد ہے اس لیے بھی دعوے اور دلیل میں مطابقت نہیں ۔{کیا خوب ؛ غیر مقلدین کے نزدیک کیا بیک وقت متعدد امراء کی اطاعت جائز ہے ؟ یا صرف ایک کی ؟ اگر متعدد کی جائز ہے تو دوسرے کو قتل کرنے کا حکم کیوں صادر ہوا ہے ؟ اور اگر ایک کی ہے تو جمع کا صیغہ ایک پر کیسے فٹ ہوگا ؟ اور دعوی و دلیل میں تقریب تام کیسے ہوگی ؟ اور پھر فاسئلوا اہل الذکر میں بھی تو تعمیم ہے۔نہ معلوم ان کے شیخ الکل صاحب رح نے صرف ایک ہی سے سوال کرنے پر عہدہ تکلیف سے لاعلم کو کیوں فارغ الذمہ قرار دیا ہے ؟صفدر} آیت کا اصل صحیح اور ٹھیک مطلب یہ ہے کہ خدا ورسول کی تو مستقل اطاعت ہے ہی اولی الامر یعنی حکومت والوں کی اطاعت امور دنیا میں اس شرط کے ساتھ ہے کہ وہ خدا رسول کے خلاف نہ کہیں اور علماء کی اس شرط کے ساتھ ہے کہ خدا رسول کی باتیں ہمیں پہنچائیں ۔ تو اس میں چاروں اماموں کی کوئی خصوصیت نہیں
{یقینا ہےکیونکہ ان کے مسائل کتابوں میں ابوابا و فصولا مدون و مرتب ہیں جبکہ دوسرے حضرات ائمہ کرام کے مسائل یا تو انہی حضرات ائمہ اربعہ کے مسائل میں مدغم اور مندرج ہوگئے ہیں ۔ اور یا مٹ گئے ہیں کما سیجیء انشاء اللہ ۔ صفدر } صحابہ سے لیکر آج تک جو علماء کرام خدا رسول کی باتیں لوگوں کو پہنچائیں ۔ہر شخص پر ان باتوں کا ماننا ضروری ہے کیونکہ وہ ان کی اپنی باتیں نہیں وہ صرف ناقل اور مبلغ ہیں ۔ باتیں دراصل اللہ رسول کی ہیں جن کی اتباع بالاستقلال ہمارے ذمہ فرض ہے {غیرمنصوص مسائل میں قیاس واجتہاد کا جواز بھی تو حدیث اور اقرار فریق ثانی سے ثابت ہے ۔صفدر} الی قولہ پس امور شرعی میں کسی کی تقلید مطلق حرام ٹھہری ۔ یہی ائمہ کا ارشاد ہے ۔اور یہی امام صاحب نے فرمایا ہے اھ [طریق محمدی ص193}
لفظ اولی الامر جمع ہے اور تقلید شخصی مفرد ہے اس لیے بھی دعوے اور دلیل میں مطابقت نہیں ۔{کیا خوب ؛ غیر مقلدین کے نزدیک کیا بیک وقت متعدد امراء کی اطاعت جائز ہے ؟ یا صرف ایک کی ؟ اگر متعدد کی جائز ہے تو دوسرے کو قتل کرنے کا حکم کیوں صادر ہوا ہے ؟ اور اگر ایک کی ہے تو جمع کا صیغہ ایک پر کیسے فٹ ہوگا ؟ اور دعوی و دلیل میں تقریب تام کیسے ہوگی ؟ اور پھر فاسئلوا اہل الذکر میں بھی تو تعمیم ہے۔نہ معلوم ان کے شیخ الکل صاحب رح نے صرف ایک ہی سے سوال کرنے پر عہدہ تکلیف سے لاعلم کو کیوں فارغ الذمہ قرار دیا ہے ؟صفدر} آیت کا اصل صحیح اور ٹھیک مطلب یہ ہے کہ خدا ورسول کی تو مستقل اطاعت ہے ہی اولی الامر یعنی حکومت والوں کی اطاعت امور دنیا میں اس شرط کے ساتھ ہے کہ وہ خدا رسول کے خلاف نہ کہیں اور علماء کی اس شرط کے ساتھ ہے کہ خدا رسول کی باتیں ہمیں پہنچائیں ۔ تو اس میں چاروں اماموں کی کوئی خصوصیت نہیں
{یقینا ہےکیونکہ ان کے مسائل کتابوں میں ابوابا و فصولا مدون و مرتب ہیں جبکہ دوسرے حضرات ائمہ کرام کے مسائل یا تو انہی حضرات ائمہ اربعہ کے مسائل میں مدغم اور مندرج ہوگئے ہیں ۔ اور یا مٹ گئے ہیں کما سیجیء انشاء اللہ ۔ صفدر } صحابہ سے لیکر آج تک جو علماء کرام خدا رسول کی باتیں لوگوں کو پہنچائیں ۔ہر شخص پر ان باتوں کا ماننا ضروری ہے کیونکہ وہ ان کی اپنی باتیں نہیں وہ صرف ناقل اور مبلغ ہیں ۔ باتیں دراصل اللہ رسول کی ہیں جن کی اتباع بالاستقلال ہمارے ذمہ فرض ہے {غیرمنصوص مسائل میں قیاس واجتہاد کا جواز بھی تو حدیث اور اقرار فریق ثانی سے ثابت ہے ۔صفدر} الی قولہ پس امور شرعی میں کسی کی تقلید مطلق حرام ٹھہری ۔ یہی ائمہ کا ارشاد ہے ۔اور یہی امام صاحب نے فرمایا ہے اھ [طریق محمدی ص193}
انشاءاللہ تعالی ہم تفصیل سے بیان کریں گے کہ لا علم کے لیے تقلید واجب ہے حرام نہیں ۔اور قران و حدیث نے امور شرعی میں تقلید کی اجازت دی ہے جب کہ مسائل غیر منصوص ہوں ۔اور اس پر حضرات غیرمقلدین کی تصریحات بھی باحوالہ عرض کی جائیں گی اور حضرات ائمہ اربعہ اور ان میں علی الخصوص حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رح اور ان کے پیروکارو نے جو کچھ کہا ہے ۔ وہ بھی مفصل آرہا ہے ۔ اور امور شرعی میں مطلقا تقلید کو حرام کہنا صرف اسی شخص کا حصہ ہوسکتا ہے جو عقل و خرد سے محروم ہو ۔ مذکورہ عبارت میں خط کشیدہ الفاظ سے یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ حکام اور علماء کی اطاعت اس شرط سے مشروط ہے کہ خدا تعالی اور اس کے رسول بر حق صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نہ ہو ان کی باتیں ہمیں پہنچائیں اور اہل اجتہاد اجتہاد بھی کریں اور ہم اس کو بھی تسلیم کریں ۔ اور جملہ مقلدین بھی یہی کچھ کہتے ہین ۔ فرق صرف تعبیر کا ہے ۔یہ بات بھی نہایت ہی قابل توجہ ہے کہ اگر چہ حضرات محدثین کرام کا پایا بھی اسلام میں بہت ہی بلند ہے ۔ لیکن حضرات فقہاء کرام کا رتبہ بھی کسی طرح کم نہیں ۔ ہم یہاں صرف دو حدیثوں کا ترجمہ عرض کرتے ہیں ۔ ملاحظہ فرمایئے ،
{1}حضرت ابوموسی {عبد اللہ بن قیس } الاشعری رضی اللہ عنہ {المتوفی سنہ 52ھ} سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
جو روحانی بارش میں لے کر آیا ہوں اس کی مثال ایسی ہے جیسے جسمانی بارش کی ۔جو زمین کے مختلف حصوں پر برستی ہے اور اس سے مختلف قسم کے اثرات اور نتائج پیدا ہوتے ہیں ۔۔مثلا ایک خطہ ارضی وہ ہے جس پر بارش ہوئی اور اس خوشگوار زمین نے بارش کا اپنے اندر خوب جذب کرلیا ۔اور پھر گھاس ،سبزی ،ترکاری اور مختلف پھولوں کی شکل میں اس زمین نے سبزہ اگایا ۔دوسرا قطعہ زمین کا وہ ہے جسمیں پانی رک تو جاتا ہے لیکن اس میں سبزی گھاس اور پھول وغیرہ اگانے کی قابلیت نہیں ہوتی ۔لیکن یہ زمین بھی مفید ہے ۔کہ اس کے اندر رکے ہوئے پانی کو لوگ بھی پیتے ہیں اور جانوروں کو بھی پلاتے ہیں ۔اور کھیتی کو بھی وہ پانی مل سکتا ہے ۔ تیسرے قسم کا ٹکڑا وہ چٹیل حصہ ہے جسمیں نہ تو سبزہ اگانے کی استعداد ہوتی ہے اور نہ پانی کو روکنے کی بس پانی آیا اور گیا ۔[بخاری ص 10 ج 1۔ و مسلم ص 274 ج و مشکوۃ ص 28 ج 1}
غور فرمایئے کہ زمین کے ان تین خطوں میں بہتر کون سا خطہ ہے ؟ اگر چہ پانی کا اپنی صحیح صورت میں رہنا بھی مفید ہے ۔لیکن انسانوں اور حیوانوں کی دیگر مختلف ضروریات {اناج ،ترکاری ، پھل اور پھول اور گھاس وغیرہ } پانی کے اپنی شکل میں رہنے سے تو حاصل نہیں ہوسکتیں ۔اس لیے زمین کا پہلا ٹکڑا {جس سے ہر قسم کی ضروریات پوری ہوتی ہیں }سب سے بہتر ہے ۔
زمین کے پہلے حصے سے آپ حضرات فقہاء کرام سمجھ لیں جو اس روحانی بارش {قران وحدیث }کی استمداد سے انسان کی ضروریات کے مختلف پہلووں کو سیراب کرتے ہیں ۔اور دوسرے خطہ کی مثال آپ حضرات محدثین عظام رح کی سمجھ لیں ۔جو روحانی بارش {قران و حدیث } کو اپنے حافظہ کے تالاب اور حوض میں جمع کرلیتے ہیں ۔اور بندگان خدا اپنی دینی تشنگی اس پانی سے بجھاتے ہیں ۔ اور تیسرے حصے کی مثال ما وشما کی سمجھ لیجیے کہ نہ محدث نہ فقیہ ۔ نہ اپنے کام کے اور نہ دوسرے کے کام کے ۔دنیا میں نامراد آئے اور ناکام گئے ۔
قسمت کیا ہر ایک کو قسام ازل نے
جو شخص کہ جس چیز کے قابل نظر آیا
جو شخص کہ جس چیز کے قابل نظر آیا
{2} آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا۔
نضر اللہ امراء سمع مقالتی فحفظھا فوعاھا واداھا فرب حامل فقہ غیر فقیہ {الحدیث}
نضر اللہ امراء سمع مقالتی فحفظھا فوعاھا واداھا فرب حامل فقہ غیر فقیہ {الحدیث}
اللہ تعالی تر وتازہ رکھے اس بندہ کو جو میری حدیث سن کر یاد رکھے پھر دلنشیں کرنے کے بعد دوسروں کو سنائے ہوسکتا ہے کہ یہ حامل حدیث فقیہ نہ ہو {اور جس کو یہ سنائے وہ فقیہ ہو اور اس سے ضروریات کے موافق مسائل استنباط کرسکے }
یہ حد یث جہاں تک راقم الحروف کو معلوم ہے تیئس ۲۳ حضرات صحابہ کرام سے مختلف الفاظ اور متعدد سندات کے ساتھ مروی ہے ۔ اس حدیث کی تشریح میں “شوق حدیث “ مصنف مولانا سرفراز خان صفدر ؒ دیکھیں جس میں کتب حدیث وتاریخ و اسماء الرجال سے حضرات محدثین کرام کے حافظے کی ایسی مثالیں نقل کی ہیں ۔ جن کو سن کر انسان حیران رہ جاتا ہے
یہ حد یث جہاں تک راقم الحروف کو معلوم ہے تیئس ۲۳ حضرات صحابہ کرام سے مختلف الفاظ اور متعدد سندات کے ساتھ مروی ہے ۔ اس حدیث کی تشریح میں “شوق حدیث “ مصنف مولانا سرفراز خان صفدر ؒ دیکھیں جس میں کتب حدیث وتاریخ و اسماء الرجال سے حضرات محدثین کرام کے حافظے کی ایسی مثالیں نقل کی ہیں ۔ جن کو سن کر انسان حیران رہ جاتا ہے
یہ حدیث حضرت ابن مسعود رض اور حضرت جبیر بن مطعم رض وغیرہ سے مروی ہے امام ترمذی حضرت عبد اللہ بن مسعود رض کی اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں “حسن صحیح “{ ترمذی ص ۹۰ ج ۲} امام حاکم اور علامہ ذہبی رح حضرت جبیر بن مطعم رض کی حدیث کی شرط شیخین پر تصحیح کرتے ہیں ۔ {مستدرک ص ۸۶ ج ۱}
الغرض مختلف انسانی ضروریات کو حضرات فقہاء کرام ہی اپنے قیاس ۔اجتہاد اور استنباط سے پورا کرسکتے ہیں ۔ الغرض حضرات محدثین عظام کا کام تو اس حدیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ حدیث کو بلا کم و کاست فقیہ تک پہنچائیں ۔ جب وہ خوب چھان بین اور تحقیق سے حدیث پہنچادیں تو بس ان کی ڈاک ختم ہوجاتی ہے ۔ پھر اس حدیث س ے جوہر ریزے نکالنا حضرات فقہاء کرام کا کام ہے ۔ تو جیسے حضرات محدثین کرام پر تصحیح حدیث کے سلسلے میں اعتماد کرنا شرک فی الرسالت نہیں ۔ اسی طرح حضرات فقہاء کرام پر مسائل کے استنباط کرنے کی وجہ سے اعتماد کرنے سے بھی شرک فی الرسالت لازم نہیں آتا ہے ۔
DIFAEAHNAF دفاع احناف
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں