add

تقلید پر دلیل نمبر ایک



پہلي آيت

؛ اللہ تعالي مومنوں کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :

يا ايہاالذين آمنوا اطيعوااللہ واطيعواالرسول واولي الامر منکم الآیۃ پارہ 3آل عمران

اے مومنوں اللہ کي اور رسول صلي اللہ عليہ وسلم کي اطاعت کرو اور تم ميں جو صاحب امر [اور حکم ] ہيں ان کي اطاعت کرو ۔
اس آيت کريمہ ميں تين چيزوں کا حکم ہے ۔
{1] اللہ تعالي کي اطاعت [2] حضرت محمد صلي اللہ عليہ وسلم کي اطاعت {3] اور اولي الامر کي اطاعت ۔ پہلي دو چيزوں کے متعلق تو اہل اسلام ميں سے کسي کا کوئي اختلاف نہيں کيونکہ اللہ تعالي اور اس کے رسول مقبول عليہ الصلوۃوالسلام کي اطاعت ہر مسلمان کا فرض اولين ہے اور ان کي اطاعت سے روگرداني باغي نافرمان اور سرکش کا کام ہے جب پہلي دو چيزوں ميں اختلاف ہي نہيں تو ہم اسکي تفصيل بھي عرض نہيں کرنا چاہتے ۔
البتہ تيسري چيز کے متعلق ہم کچھ عرض کرنا چاہتے ہيں ملاحظہ کريں ۔
[1] يہ بات طے شدہ ہے کہ مسلمان کو مسلم صاحب امر کي اطاعت کرنا ضروري ہے ? غير مسلم کي اطاعت نہ صرف يہ کہ ناجائز ہے بلکہ گناہ بھي ہے ? اور منکم کے لفظ ميں اللہ تعالي نے اس کو بيان فرمايا ہے کہ اولي الامر کي اطاعت اس وقت ضروري ہوگي ?جب وہ تم ميں سے [يعني مسلمان ] ہو منکم کا يہي معني ہے ۔ کيونکہ پہلے يا ايہاالذين آمنوا کي تصريح موجود ہے ۔

[2] يہ بات بھي اصول موضوعہ ميں شامل ہے کہ صاحب امر کي بات بھي جب کہ وہ خدا تعالي اور اس کے رسول بر حق صلي اللہ عليہ وسلم کي نافرماني ميں ہو ماننا ناجائز اور گناہ ہے ۔آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کا صاف ارشاد ہے ۔
فاذا امر بمعصیۃ فلا سمع ولا طاعۃ[ بخاري ص 1057 ??ج 2]
يعني جب صاحب امر کي طرف سے خدا تعالي اور اس کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم کي نافرماني کا حکم صادر کيا گيا ہو تو پھر نہ تو اس کي بات سنني جائز ہے اور نہ اسکي اطاعت روا ہے ۔

[3 ]صاحب امر جب کہ اللہ تعالي اور اس کے رسول کي اطاعت کرتا ہو تو اس صورت ميں نہ صرف يہ کہ اس کي اطاعت جائز ہي ہے بلکہ اللہ تعالي کا حکم بھي اسکي اطاعت پر مجبور کرتا ہے ? اور آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کا صاف ارشاد ہے ?
من اطاع اميري فقد اطاعني ومن عصا اميري فقد عصاني [ بخاري ص 1057 ،ج 2]
جس نے ميرے امير کي اطاعت کي اس نے ميري اطاعت کي اور جس نے ميرے امير کي نافرماني کي تو اس نے ميري نافرماني کي ۔

حضرات آپ نے صاحب امر کی اطاعت اور اسکی شرائط کا حال پڑھ لیا ۔ اب یہ بحث باقی رہ جاتی ہے کہ اولی الامر سے مراد کون ہیں ؟ ۔ اولی الامر سے اصولی طور پر دو قسم کے لوگ مراد لئے گئے ہیں ۔{1 } علماء و فقہاء [2 ] امراء جیوش اور مطلق حکام ۔
آپ اولی الامر سے پہلی قسم مراد لیں یا دوسری ۔ بہر حال ہمارا مدعی ثابت ہے
پہلی قسم ::کہ اولی الامر سے مراد علماء اور اصحاب فقہ ہیں ۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
اولی الامر منکم قال الفقہ والخیر [مستدرک ص 123 ج 1]
کہ اولی الامر سے مراد اصحاب فقہ اور ارباب خیر مراد ہیں ۔
حضرت جابر رض کی اس تفسیر کو امام حاکم نے سند کے ساتھ پیش کیا ہے۔ امام حاکم رح اور امام ذہبی دونوں اسکی تصحیح کرتے ہیں ۔

[2] حضرت عبداللہ بن عباس رض [جو حبر الامۃ اور ترجمان القران کے لقب سے مشہور تھے ] سے بھی یہی تفسیر منقول ہے ۔
یعنی اھل الفقہ والدین [ الی ان قال ] فاوجب اللہ طاعتھم {مستدرک ص 123 ج 1}
اولی الامر سے اااہل فقہ اور اہل دین مراد ہیں [ جو لوگوں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہیں ] [ آگے فرمایا کہ ] اللہ تعالی نے کی اطاعت واجب کردی ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رض کی یہ تفسیر بھی سند سے منقول ہے ۔اس کے تمام روات ثقہ بھی ہیں ۔ {ہم نے احسن الکلام اور عمدۃ الاثاث میں کتب اسماء الرجال سے ان کی توثیق نقل کردی ہے اس مقام میں ہم تفصیل میں نہیں پڑنا چاہتے }۔
اور علماء کرام کا تفسیر صحابی کے متعلق نظریہ مندرجہ ذیل ہے ۔
تفسیر الصحابی مسند ۔ تفسیر الصحابی حجۃ ۔۔ تفسیر الصحابی مرفوع ۔ [ مستدرک ص 123 ج 1۔۔۔معرفۃ علوم الحدیث ص 0 2 ۔۔۔زاد المعاد ص 520 ج 4 ۔۔۔۔تدریب الراوی ص 65 طبع مصر ۔۔الجنہ لنواب صدیق حسن خان ص 96۔]
{ترجمہ} صحابی کی تفسیر مسند ہے [ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہوتا ہے ] اور صحابی کی تفسیر حجۃ ہے ۔ اور صحابی کی تفسیر مرفوع ہوتی ہے
جب حضرت جابر رض اور حضرت ابن عباس رض اولی الامر کی تفسیر اولی الفقہ سے کرتے ہیں اور قاعدہ مذکورہ کی بناء پر صحابی کی تفسیر مرفوع حدیث ہوتی ہے اور سند بھی اسکی صحیح ہے تو یہی تسلیم کرنا پڑیگا کہ یہ تفسیر انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوگی ۔ اب دیکھئے کہ غیر مقلدین حضرات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تفسیر کو بھی قبول کرتے ہیں یا بعض دیگر حضرات مفسرین کرام رح کی تفسیر اور اپنی رائے اور پسند کی بات پر مصر رہتے ہیں ۔۔۔ع
نبی اپنا اپنا امام اپنا اپنا
اور اگر ہم یہ بھی تسلیم کرلیں کہ صحابی کی تفسیر مرفوع حدیث کے حکم میں نہیں ہوتی تب بھی بفضلہ تعالی فتح ہماری ہی ہوگی
نواب صدیق حسن خان رح فرماتے ہیں کہ
وھکذا حکم اقوالھم فی التفسیر فانھا اصوب من اقوال من بعدھم [ الجنۃ ص 96]
{ترجمہ} اور اسی طرح حضرات صحابہ کرام رض کی تفسیری اقوال کا حکم ہے کہ وہ بعد میں آنے والے حضرات کے اقوال سے بہت زیادہ صحیح ہیں
اسی طرح حضرات تابعین رح کے اقوال کے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ
وھکذا تفسیر التابعی حجۃ [لجنۃ ص 96]
ترجمہ : اور اسی طرح تابعی کی تفسیر بھی حجت ہے ۔
اور متعدد حضرات تابعین رح سے مروی ہے کہ اولی الامر سے مراد علماء اور اہل فقہ ہیں ۔ حضرت عطاء {ابن ابی رباح المتوفی سنہ 114 } سے سند کے ساتھ منقول ہے کہ
اولوالامر اولوالعلم والفقہ [ دارمی ص 40 طبع ہند و طبع دمشق ص 72]
ترجمہ : اولی الامر سے مراد اہل علم اور اصحاب فقہ ہیں
اور امام ابوبکر الجصاص الرازی رح { المتوفی 370} اولی الامر منکم کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ
اختلف فی تاویل اولی الامر فروی عن جابر بن عبد اللہ رض و ابن عباس رض روایۃ والحسن والعطاء ا مجاھد انھم اولوا الفقہ والعلم و عن ابن عباس رض روایۃ وعن ابی ہریرۃ رض انھم امراء السرایا ویجوز ان یکونو ا جمیعا مرادین بالآیۃ لان الاسم یتنا ولھم جمیعا لان الامراء یلون امر تدبیر الجیوش والسرایا قتال العدو ولعلماء یلون حفظ الشریعۃ وما یجوز وما لا یجوز اھ [ احکام القران ص 210 ج 2]
اولی الامر کی تفسیر میں اختلاف کیا گیا ہے حضرت جابر بن عبد اللہ ؓاور حضرت ابن عباس ؓسے روایۃ اور حضرت حسن ؒ حضرت عطاء ؒاور حضرت مجاھد ؒسے مروی ہے کہ اولی الامر سے مراد اہل فقہ اور اہل علم ہیں اور حضرت ابن عباس رض سے روایۃ اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ اس سے مراد امراء جیوش ہیں اور جائز ہے کہ اس آیت کریمہ سے دونوں مراد ہوں کیونکہ اولی الامر کا لفظ دونوں کو شامل ہے اس لئے کہ امرائ تدبیر جیوش اور فوجوں اور دشمن سے لڑائی کے کام کی سرپرستی کرتے ہیں اور علماء حفظ شریعت اور جائز و ناجائز کی سرپرستی کرتے ہیں ۔
یہ عبارت اپنے مفہوم و مدلول کے لحاذ سے بالکل واضح ہے ۔
اور دوسرے مقام پر لکھتے ہیں
قال الحسن وابن ابی لیلی ھم اھل الفقہ والعلم وقال السدی الامراء والولاۃ قال ابوبکر یجوز ان یرید بہ الفریقین من اھل الفقہ والولاۃ لوقوع الاسم علیھما جمیعا [احکام القران ص 215 ج 2]
ترجمہ ::حضرت حسن رح اور حضرت قتادہ رح اور حضرت ابن ابی لیلی رح فرماتے ہیں کہ اولی الامر اہل علم و فقہ ہیں اور حضرت سدی رح فرماتے ہیں کہ امراء اور حکام مراد ہیں امام ابوبکر الجصاص رح فرماتے ہیں کہ جائز ہے کہ اس سے دونوں فریق مراد ہوں کیونکہ یہ لفظ دونوں پر واقع ہوتا ہے
اس عبارت سے بھی بالکل عیاں ہوگیا کہ دونوں طبقے مراد لینے میں کوئی تضاد و تعارض نہیں اور نہ اس میں نقلا و عقلا کوئی قباحت ہے ۔ اور علامہ السید محمود آلوسی رح { المتوفی 1270 ھ} لکھتے ہیں کہ
وقیل المراد بھم امراء السرایا و روی ذلک عن ابی ھریرۃ و میمون بن مھران الی قولہ
و قیل المراد بھم اھل العلم و روی ذلک غیر واحد عن ابن عباس و جابر بن عبد اللھ و مجاھد والحسن و عطاء وجماعۃ واستدل علیہ ابوالعالیۃ بقولہ تعالی ولوا ردوہ الی اولی الامر منھم لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم فان العلماء ہم المستنبطون المستخرجون للاحکام و حملہ کثیر و لیس ببعید علی ما یعم الجمیع لتناول الاسم لھم لان للامراء تدبیر الجیش والقتال وللعلماء حفظ الشریعۃ وما یجوز وما لا یجوز اھ [ روح المعانی ص 65 ج 5 ]
{ترجمہ} اور کہا گیا ہے کہ اولی الامر سے مراد امراء الجیوش ہیں اور یہ تفسیر حضرت ابوہریرہ رض اور حضرت میمون بن مہران رح سے مروی ہے { پھر آگے فرمایا }
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد اہل علم ہیں اور یہ تفسیر بے شمار حضرات نے حضرت ابن عباس رض حضرت جابر بن عبداللہ رض اور حضرت مجاہد اور حضرت حسن اور حضرت عطاء اور ایک جماعت سے روایت کی ہے اور حضرت ابو العالیہ رح نے اس پر یوں استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے "اور اگر وہ لوگ اس معاملہ کو رسول اور ان میں سے اولی الامر کی طرف لوٹاتے تو ان میں سے استنباظ والے اس کی تہ تک پہنچ جاتے ۔" فرماتے ہیں کہ علماء کرام ہی احکام کا استنباط اور استخراج کرتے ہیں اور بہت سے حضرات نے دونوں کے لئے عام کیا ہے اور یہ بھی بعید نہیں کیونکہ اولی الامر کا اسم دونوں کو شامل ہے امراء کو تو اس لئے کہ وہ جیش اور جہاد کی تدبیر کرتے ہیں اور علماء کو اس لئے کہ وہ شریعت اور جائز و نا جائز کی حفاظت کرتے ہیں اس تفسیر اور تشریح سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اولی الامر کی تفسیر میں امراء و اور علماء دونو ں مراد ہوسکتے ہیں جس طرح ان تفسیروں میں اولی الامر کا معنی امراء سرایا اور اہل فقہ اور اہل علم کے کیا گیا اسی طرح تفسیر معالم التنزیل ص 494 ج 2 اور تفسیر ابن کثیر ص 497 ج2 اور تفسیر کشاف ص 370 ج 1 وغیرہ میں بھی اولی الامر کا مصداق اہل الفقہ اولعلم منقول ہے مگر ہم اختصار کے پیش نظر اسی پر اکتفاء کرتے ہیں اور مزید لطف کی بات یہ ہے کہ مشہور غیرمقلد عالم قاضی محمد بن علی شوکانی رح المتوفی سنہ 1250ھ بھی یہ لکھتے ہیں کہ
ان للمفسرین فی تفسیر اولی الامر قولین احدھما انھم الامراء والثانی انھم العلماء ولا تمتنع ارادۃ الطائفتین من الآیۃ الکریمۃ ولکن این ھذا من الدلالۃ علی مراد المقلدین فانہ لا طاعۃ للعلماء ولا للامراء الا اذا امروا بطاعۃ اللہ وفق شریعتہ والا فقد ثبت عنہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم انہ قال لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق [القول المفید ص11]
[ترجمہ]:حضرات مفسرین کرام کے اولی الامر کی تفسیر میں دو اقوال ہیں ایک یہ کہ اس سے امراء مراد ہیں اور دوسرا یہ کہ اس سے علماء مراد ہیں اور کوئی امتناع نہیں کہ اس آیت کریمہ سے دونوں طبقے مراد لئے جائیں لیکن مقلدین کی مراد پر اس آیت کے دلالت کا کیا تعلق ؟ اس لئے کہ امراء کی اطاعت صرف اس وقت ہوگی جب کہ وہ شریعت کے مطابق اللہ تعالی کی اطاعت کا حکم دیں ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث ثابت ہے کہ خالق کی نافرمانی میں مخلوق میں سے کسی کی اطاعت جائز نہیں باقی باتیں تو بالکل واضح ہیں ۔خصوصا یہ بات کہ اولی الامر سے علماء بھی مراد ہوسکتے ہیں ۔اور اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے ۔ اور ہمارا مقصد بھی اس حوالہ سے صرف یہی بات ہے ۔
البتہ شوکانی رح کا یہ قول ولکن این ھذا من الدلالۃ علی مراد المقلدین الخ تو یہ تقلید سے نفرت کی وجہ سے بد کمانی اور سوء ظن کا نتیجہ ہے ۔ کیونکہ حضرات مقلدین تو ببانگ دہل چلا چلا کر یہ کہ رہے ہیں کہ منصوص مسائل میں اور قران اور حدیث اور اجماع کے خلاف کسی کی تقلید جائز نہیں ۔ تقلید صرف ان مسائل میں جائز ہے جو غیر منصوص ہوں اور جاہل کو لاعلمی کے وقت قران و حدیث کے صریح حکم سے باقرار فریق ثانی اہل علم کی طرف رجوع کرنے اور ان سے سوال کرنے کا حکم ہے ۔ اور وہ شرعا اس کا مکلف اور پابند ہے ۔ اور ایسے مسائل میں تقلید اللہ تعالی اور اس کے رسول برحق کے حکم کی تعمیل اور ان کی اطاعت میں ہوتی ہے نہ یہ کہ ان کی نا فرمانی میں. اور اولی الامر کا مضمون مقلدین کی مراد پر واضح اور روشن دلیل ہے ۔ اور نواب صدیق حسن خان بھی لکھتے ہیں کہ
قال ابن عباس رض و جابر رض والحسن و ابو العالیۃ و عطاء والضحاک ومجاھد والامام احمد ھم العلماء [الجنۃ ص4]
ترجمہ::حضرت ابن عباس رض ، حضرت جابر رض ، حضرت حسن بصری حضرت ابوالعالیہ حضرت ضحاک حضرت مجاہد اور حضرت امام احمد فرماتے ہیں کہ اولی الامر سے مراد علماء ہیں ۔۔

الحاصل جب یہ بات پایہ تکمیل تک پہنچ چکی ہے کہ اولی الامر سے مراد اصحاب فقہ علماء اور اصحاب خیر ہیں تو ان کی اطاعت کا اللہ تعالی حکم دیتے ہیں ۔ اور یہ محال ہے کہ شرک وبدعت و مذموم امر کا حکم رب العزت کی طرف سے ہو اور صیغہ امر اطیعوا بھی اچھی طرح خیال فرمائیں۔
نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں۔
اصل در امر وجوب فعل مامور بہ است [بدور الاہلہ ص 22]
{ترجمہ} یعنی امر اصل قاعدہ کے لحاظ سے فعل مامور بہ کے وجوب کیلئے ہوتا ہے ۔
جب صیغہ امر سے مامور بہ کا وجوب ثابت ہے تو اس وجوب پر عمل کرنے سے شرک کیوں لازم آیا اور یہ مذموم کیوں ہے ؟۔فریق ثانی کو خدا تعالی کا خوف کرنا چاہئے کہ مطلقا تقلید حضرات ائمہ کرام رح کے شرک کہنے سے کیا خرابی لازم آتی ہے ؟ اور اسکی زد کہاں پڑتی ہے ؟ اور حضرات ائمہ کرام کی یہی توقیر ہے ؟
کیا اسلیئے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے ::: بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگادے

دوسری قسم :۔ کہ اگر اولی الامر سے مراد حکام اور امراء ہی ہوں جیسا کہ اس آیت کا شان نزول بھی ایک سپہ سالار کی شدت ہے تو بھی کوئی خرابی نہیں ۔ کیونکہ اگر رسول کے بغیر کسی کو حاکم اور بنانے سے شرک فی السالت لازم آتا اور اسکی اطاعت ناجائز ہوتی تو اسلام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا آپ کی موجودگی میں بھی اور آپ کے انتقال کے بعد بھی کسی کو امام منتخب کرنا جائز نہ ہوتا ۔۔مگر ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نے خود امراء اور حکام چنے اور منتخب کئے ۔ اور اللہ تعالی کا حکم ہے کہ تم اولی الامر یعنی امراء کی جبکہ وہ مسلمان اور پابند شریعت ہوں اطاعت کرو۔ اور بخاری شریف کی حدیث پہلے نقل کی جاچکی ہے کہ جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی ۔ اور جس نے امیر کی نافرمانی کی تو اس نے آپ ص کی نافرمانی کی ۔
جب اللہ تعالی اور اسکے رسول برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے امر حکم اور قضیہ { اذا قضی اللہ و رسولہ الآیۃ} کے ہوتے ہوئے ان کی تعمیل میں کسی دوسرے کی بات کو تسلیم کرنا کفر اور شرک فی الالوہیت اور شرک فی الرسالت نہیں { حالانکہ حقیقتا فیصلہ کرنا اور حکم دینا خدا تعالی کا اور اسکی تعلیم و تبلیغ رسول برحق ہی کا کام ہے } تو اسی طرح ان کی اطاعت میں اگر کسی دوسرے کی اسلیئے تقلید کی جائے کہ وہ اللہ تعالی اور اسکے رسول برحق کی ہدایت پر چلتے ہیں ۔ اور امت کی خیر خواہی میں کوشاں ہیں تو ان کی تقلید سے کیسے شرک فی الالوہیت اور شرک فی الرسالت لازم آئے گا ؟

اعتراض :۔

فریق ثانی کہتا ہے کہ خلفاء امراء اور حکام کی اطاعت تو امور دنیوی میں کی جاتی ہے ۔ اور امور دنیوی میں کسی بات کو امن عامہ اور سیاست کو برقرار رکھنے کیلئے تسلیم کرنا شرک نہیں نہ فی الالوہیت اور نہ فی الرسالت ، شرک تو جب ہوگا کہ دین میں کسی کو منصب نبوت اور منصب رسالت پر جگہ دی جائے اور تم حضرات ائمہ دین کو دین میں مقتدی اور پیشوا بناتے ہو ۔ لہذا شرک ہوا ۔

الجواب :۔

فریق ثانی کا یہ اغلوطہ موجودہ لادینی سیاست کا ایک عکس ہے ۔ کہ دین کو دنیا سے اور دنیا کو دین سے الگ سمجھتے ہیں ۔
حضرات مسلمانوں کا دین اور دنیا ۔مذہب اور سیاست دو الگ الگ راستے نہیں ۔ بلکہ مسلمان کی سیاست اور دنیا بھی دین ہی ہے ۔ یہاں دین اور دنیا کا اور مذہب و سیاست کا فرق نکالنا زندقہ اور الحاد ہے

آپ ہمارے اس بیان کی تائید میں مندرجہ ذیل امور کا خیال فرمائیں ۔

{1}صحیح حدیث میں ہے کہ تین قسم کے لوگ ہونگے جن کو اللہ تعالی قیامت کے دن شفقت کی نظر سے نہیں دیکھیں گے ۔
رجلا بایع اماما لا یبایعہ الا للدنیا الحدیث { بخاری ص 317 ج1}
ان میں سے ایک وہ شخص بھی ہوگا جس نے امام وقت کے ہاتھ پر حصول دنیا کیلئے بیعت کی
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان کی بیعت دنیا کیلئے نہیں ہوتی ۔ بلکہ دین کیلئے ہی ہونی چاہئے ۔جب دنیا کیلئے بیعت اتنی مذموم ٹھہری تو اس کی نسبت حضرات صحابہ کرام رض اور تابعین عظام کی طرف اور اسلام کے ذرین اصول کی طرف چہ معنی دارد ؟
{2} :۔ کتب عقائد میں امام کے متعین کرنے کا مقصد صاف طور پر لکھا گیا ہے کہ ،
لان المقصود من نصب الامام بالذات اقامۃ امر الدین [مسامرہ ص 123 ج 2]
امام اور خلیفہ کے انتخاب سے مقصود بالذات امور دین کا قائم کرنا ہوتا ہے ۔
اور شرح العقائد ص 110 میں ہے کہ خلافت سے مقصود امرالدین ہے چنانچہ ارشاد ہے ۔
وھو الامر المقصود الاھم والعمدۃ العظمی ۔ یعنی امر دین ہی مقصود اہم اور بڑی مطلوب چیز ہے
جب امام اور خلیفہ کا انتخاب ہی امور دین کی اصلاح کیلئے ہوتا ہے تو ہم اس گورکھ دندھے کو نہیں سمجھ سکتے کہ ایک طرف تو امیر کے انتخاب پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتنی وعید شدید وارد ہو کہ جس کے گلے میں کسی امام کی بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا اور نیز فرمایا اگر چہ حبشی غلام بھی تمہارے اوپر امیر منتخب کرلیا جائے تو اس کی اطاعت بھی تمہارے لئے ضروری ہے {بخاری ص 1057 ج 2۔ مسلم ص 128 ج 2 ۔ و ص 124 ج2}
اور دوسری طرف حسب خیال فریق ثانی دین کے بارے میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر کسی اور کی اقتداء شرک فی اگر الرسالت ہے اور امیر کی اطاعت صرف سیاسی ہے ایک طرف تو بالفرض حبشی کو بھی دین کے بارے میں خلیفہ اور امام بنانا شرک فی الرسالت نہ ہو اور دوسری طرف مثلا امام شافعی جیسے قریشی اور عربی النسل امام کو بھی دین کے معاملات میں مقتداء بنانا شرک فی الرسالت ہوجائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک طرف اگر امیر کی ذرا بھی سرتابی کی جائے تو زبردست سزا کا مستوجب ہو ۔ حالانکہ مجازی حاکم ہے حقیقی حاکم تو صرف پروردگار ہی ہے ۔ ان الحکم الا للہ ۔ اللہ تعالی کے بغیر کسی کو حکم دینے کا حق ہی نہیں ۔ اور مزید لطف یہ ایک امیر کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا امیر اگر کھڑا ہو تو امیر ثانی کی جان کی خیر نہیں ۔{مسلم ص128 ج 2}۔۔
یعنی یہاں اتنی سخت گرفت ہے مگر سب کچھ ہوتے ہوئے بھی امیر کی اطاعت نہ تو شرک فی الالوہیت ہے اور نہ شرک فی الرسالت ہے مگر دوسری طرف اس میں اتنی سہولت ہے کہ اس سے زیادہ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا وہ یہ کہ اگر کوئی محقق عالم ہے تو چاہے کسی امام کی بھی تقلید نہ کرے بلکہ قران و حدیث سے براہراست مسائل اخذ کرلے ۔ اور بصورت جاہل ہونے کے متعدد حضرات ائمہ کرام کی موجودگی میں چاہے تو کسی ایک امام کی تقلید کرلے اور چاہے تو {عند البعض } پہلے کی تقلید کو چھوڑ کر دوسرے کی تقلید کرلے ۔ اور چاہے تو علامہ ذہبی رح کے الفاظ میں امام ابن دقیق العید رح کی طرح المالکی الشافعی بن کر ڈبل مقلد بن جائے ۔ دیکھئے یہاں رابطہ کتنا کمزور ہے ۔ مگر فریق ثانی کے نزدیک ایسا کر نے سے ضرور شرک فی الرسالت لازم آجاتا ہے ۔ اور خلیفہ کی بیعت میں کیسی سخت پابندی موجود ہے لیکن وہ شرک فی الرسالت نہیں ۔
الغرض جب خلیفہ اور حاکم کی بیعت بھی امور دین میں شامل ہے ۔ اور کسی ایک امام کی تقلید بھی دینی ہی چیز ہے تو جب شرعا مسند رسول پر خلیفہ اور حاکم کو بھی بٹھلایا جاسکتا ہے اور ادھورے سے اختیار کے تحت امام بھی نائب رسول ہوسکتا ہے تو اگر پہلی چیز شرک نہیں بلکہ اسکی پابندی نہ کرنے پر اشد ترین وعیدیں بھی موجود ہیں تو دوسری چیز کیوں شرک ہے ؟ امید ہے کہ فریق ثانی سوچ سمجھ کر کچھ ارشاد فرمائے گا ۔

{3}حضرت امام رازی {فخرالدین ابوعبداللہ بن محمد بن عمر المتوفی سنۃ 606 ھ} فرماتے ہیں ۔
انہ لا نزاع ان جماعۃ من الصحابۃ والتابعین حملوا قولہ واولی الامر منکم علی العلماء {تفسیر کبیر ص 149 ج 10}
اس میں کوئی نزاع نہیں کہ حضرات صحابہ کرام اور تابعین کی ایک جماعت نے اولوالامر کو علماء کے معنی پر حمل کیا ہے
اور فرماتے ہیں کہ اگر اولی الامر سے امراء بھی مراد لئے جائیں تب بھی علماء اس کا اولین مصداق ہیں ۔

ان اعمال الامراء والسلاطین موقوفۃ علی فتاوی العلماء والعلماء فی الحقیقۃ امراء الامراء فکان حمل لفظ اولی الامر علیھم اولی {تفسیر کبیر ص 146 ج 10}
بلا شک امراء اور بادشاہوں کے اعمال علماء کے فتووں پر موقوف ہیں اور حقیقت میں علماء ہی امراء کے امراء ہیں تو لفظ اولی الامر کا علماء پر حمل کرنا زیادہ بہتر ہے
اور عوام پر علماء اور امراء کی یہ اطاعت بھی اس وقت واجب ہے جب کہ وہ عادل اور دین کے پابند ہوں ورنہ نہیں ۔ چنانچہ ابوبکر الجصاص رح فرماتے ہیں کہ ۔
فامر الناس بطاعتھم والقبول منھم ما عدل الامراء والحکام وکان العلماء عدولا مرضیین موثوقا بدینھم و امانتھم فیما یوء دون ۔{احکام القران ص 210 ج 2}
عام لوگوں پرامراء اور علما ء کی اطاعت اور ان کی بات کو قبول کرنے کے مامور ہیں جب کہ امراء اور حکام عادل ہوں ۔ اور عادل اور پسندیدہ ہوں اور جس چیز کو وہ ادا کرتے ہوں اس میں ان کے دین اور امانت پر اعتماد ہو ۔

مطلب بالکل واضح ہے کہ اگر امراء اور حکام ظالم ہوں اور خلاف شرع احکام جاری کرتے ہون اور علماء دین اور دینی امانت کے لحاظ سے قابل اعتماد اور عادل نہ ہوں بلکہ علماء سوء ہوں تو ان کی اطاعت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور امام رازی رح اولی الامر کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں ۔

المسئلۃ الاولی فی اولی الامر قولان احدھما الی ذوی العلم والرای منھم والثانی الی امراء السرایا و ھولاء رجحوا ھذا القول علی الاول قالوا لان اولی الامر الذین لھم امر علی الناس و اھل العلم لیسوا کذلک ا نما الامراء ھم الموصوفون بان لھم امرا علی الناس واجیب بان العلماء عاملین باوامر اللہ ونواھیہ وکان یجب علی غیرھم قبول قولھم لم یبعد ان یسموا اولی الامر من ھذا الوجہ والذی یدل علیہ قولہ تعالی لیتفقھوا فی الدین ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون فاوجب الحذر بانذارھم والزم المنذرین قبول قولھم فجاز بھذا المعنی اطلاق اسم اولی الامر علیھم {تفسیر کبیر ص 199 ج 10 }

پہلا مسئلہ یہ ہے کہ اولی الامر کی تفسیر میں دو قول ہیں ایک یہ کہ اس سے اہل علم اور اصحاب الرای مراد ہیں ۔ دوسرا یہ ہے کہ اس سے امراء جیوش مراد ہیں اور اس قول والوں نے اس کو پہلے پر ترجیح دی ہے کہ یہ کہتے ہوئے کہ اولی الامر وہ ہیں جن کی بات اور حکم لوگوں پر نافذ ہو اور اس وصف کے ساتھ امراء ہی موصوف ہیں نہ کہ علماء ۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ علماء جب کہ وہ اللہ تعالی کے اوامر اور نواہی کو جانتے ہوں تو نہ جاننے والوں پر ان کی بات کو قبول کرنا واجب ہے تو اس وجہ سے بعید نہیں کہ وہ بھی اولی الامر سے موسوم ہوں اور اس پر اللہ تعالی کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے کہ اپنی قوم کو جب وہ ان کی طرف لوٹیں ڈرائیں شاید کہ وہ {نافرمانی سے } بچتے رہیں تو اللہ تعالی نے ان کے ڈرانے سے قوم پر بچنا واجب کیا ہے اور جس قوم کو انہوں نے ڈرایا ہے ان پر ان کے قول کو قبول کرنا لازم ٹھہرایا ہے تو اس وجہ سے اولی الامر کا اطلاق ان پر جائز ہے ۔
یعنی جس طرح عوام پر علماء کا قول ماننا {جو موافق شرع ہو } واجب اور لازم ہے اسی طرح لاعلم لوگوں پر علماء کی بات جو اللہ تعالی کے اوامر اور نواہی سے بخوبی آگاہ ہیں تسلیم بھی لازم اور واجب ہے اس لحاظ سے علماء حق کی بات ماننا بھی عوام پر واجب اور لازم ہے جس طرح امراء کی تو علماء حق بھی اولی الامر کا مصداق ہیں ۔

{4} نواب صاحب رح لکھتے ہیں ۔کہ اولی الامر کی جو دو تفسیریں کی گئی ہیں ان میں کوئی تضاد نہیں ۔ کیونکہ
والتحقیق ان الامراء انما وطاعون اذا امروا بمقتضی العلم فطاعتھم طبع لطاعۃ العلماء کما ان طاعۃ العلماء طبع لطاعۃ الرسول [الجنۃ ص 4]
تحقیق یہ ہے کہ امراء اور حکام کی اطاعت تب ہی کی جاتی ہے کہ وہ علم {شریعت } کے مطابق فیصلہ کریں تو امراء کی اطاعت علماء کی اطاعت کے تا بع ہے جیسا کہ علماء کی اطاعت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے تابع ہے ۔

الحاصل یہ حقیقتا اطاعت تو علماء کی ہونی چاہئے ۔ حکام کی اطاعت تو اس لئے کی جاتی ہے کہ وہ علماء کے تابع اور شریعت اسلامی کے موافق فیصلے صادر کرتے ہیں ۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رح { المتوفی 1392ھ} فرماتے ہیں کہ اولی الامر کی تفسیر میں صحابہ کرام تابعین اور تبع تابعین کا موقف یہ ہے کہ اس سے مراد خلفاء علماء اور فقہاء ہیں اور مولانا صدیق حسن خان صاحب {رئیس اہل حدیث } بھی اس معنی کو اپنی تفسیر میں قبول کرتے ہیں {جواہر الفقہ ص 122 ج 1}

آپ اولی الامر کی تحقیق سن چکے کہ اصحاب فقہ ہوں یا حکامم بہر حال ان کی اقتداء کا حکم قران کریم کی آیت مذکورہ سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا ہے اگر حضرات ائمہ کرام کی تقلید شرک فی الرسالۃ ہے تو حکام اور امراء کی اطاعت بھی تو شرک فی الرسالت ہی ہوگی لیکن اگر حکام کی اطاعت واجب ہے تو لا علمی کے وقت حضرات ائمہ کرام کی اطاعت بھی واجب ہی ہوگی اور ہے ۔ اگر فریق ثانی اس کو واجب نہیں مانتا تو نہ سہی مگر اس کو شرک بھی تو نہ کہے ۔ لیکن کیا کیا جائے کہ خود اسکا اپنا زاویہ نگاہ درست نہیں ۔
تیری نگاہ کرم کو بھی آزما دیکھا
اذیتوں میں نہ ہونی تھی کچھ کمی نہ ہوئی

((((خلاصہ)))

اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں اطاعت ، اتباع اور حکم میں تین درجے بیان فرمائیں ہیں۔

اطاعت

اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتے ہیں:۔

اَطِيْعُوا اللّٰهَ۔اللہ کی اطاعت کرو۔وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ۔اور رسو ل کی اطاعت کرو۔وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ (النساء ۵۹)،اور جو لوگ اہل استنباط ہیں، خود قرآن نے اس کا معنٰی بتایا ہے۔ الذین یستنبطونه ۔مستدرک علی الصحیحن میں لکھا ہے قال ابن عباسؓاولی الامر سے اہل فقہ اور اہل دین مراد ہیں جو لوگوں کو العملبالمعروفوالنهيعنالمنكر کریں تو اللہ تعالٰی نے ان کی اطاعت واجب کردی ہے“ ۔(مستدرک علی الصحیحین جلد اول ص۲۱۱)

اتباع

اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتے ہیں۔

اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ (سورۃ الاعراف ۳)اللہ کی طرف سے جو کتاب نازل ہوئی ہے اسے مان لو ۔ پھر فرمایا۔قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (سورۃ آل عمران ۳۱)اے اللہ کے نبی آپ اعلان کر دیں کہ جب تک تم میری اتباع نہیں کرو گے، خدا کے پیارے نہیں بن سکتے۔اور اسی قرآن میں تیسری آیت ہے۔وَّاتَّبِعْ سَبِيْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَيَّ (سورۃ لقمان ۱۵)اور تقلید کر اس شخص کی جو میرے طرف رجوع رکھنے والا ہے۔ایک بات یاد رکھیں جہاں تقلید کا لغوی معنٰی ذکر کیا ہے وہ بلا دلیل بات ماننے کو کہتے ہیں، لیکن مجتہد کی بات اور قاضی کا فیصلہ بادلیل ہوتا ہے ، تو جس طرح نبی کی بات ماننے کو تقلید نہیں کہا جاتا اسی طرح مجتہد کی بات ماننے کو بھی تقلید نہیں کہا گیا لیکن عرف میں یہ لفظ مجتہد کے لئے خاص ہو گیا ، جو مجتہد کی با دلیل بات کو مانے گا اس کو مقلد کہتے ہیں۔
حکم
اسی طرح اللہ تعالٰی نے حکم کے بارے میں تین قسم کے احکام دیئے ہیں۔

اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتے ہیں۔ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ (سورۃ الانعام ۵۷)حکم صرف اللہ کا ۔پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیںفَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ(سورۃ النساء ۶۵)۔ یعنی نبی بھی حَکم ہے،منکرین حدیث کہتے ہیں ہم نہیں مانتے، اسی قرآن میں تیسری آیت ہے۔يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِيْنَ هَادُوْا وَالرَّبّٰنِيُّوْنَ (سورۃ مائدہ ۴۴)۔۔ اور حکم کرتے ربانی۔۔۔بخاری میں لکھا ہے کہ ربانی کے معنٰی فقیہ ہوتے ہیں۔ وقال ابن عباس کونواربانین حکماء علماء فقھاء(بخاری)۔ قرآن نے فقیہ کو بھی حاکم قرار دیا ہے۔

اس کے مقابلہ میں لامذہب غیر کے مقلد اس قرآن سے ایک آیت بتا دیں، ( یہ نہ بتائیں کہ کافروں کے پیچھے نہ جاؤ، مشرکوں کے پیچھے نہ جاؤ ، گناہ گاروں کے پیچھے نہ جاؤ اور خاص طور پر جاہل غیر مقلد کے پیچھے بھی نہ جاؤ کیونکہ جاہل اور عالم مجتھد برابر نہیں ہوسکتے اور ہم بھی اس کے خلاف ہے ) بس ہمیں اس قرآن میں سے ایک آیت یہ سنا دیں کہ مجتہد کی تقلید کرنا، اولی الامر کی بات ماننا، اہل اتباع کی اتباع کرنا، اہل استنباط کی طرف رجوع کرنا ، مجتہدین کو اپنا حَکم سمجھنا یہ بدعت ہے ، شرک ہے کفر ہے جو بھی ہے یا قرآن پاک نے کم از کم اس سے منع کر دیا ہے ۔ ہم پوری ذمہ داری کیساتھ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم اس پورے قرآن میں ایک بھی ایسی آیت موجود نہیں جس میں مجتہد اولی الامر ، اہل استنباط اہل ذکر اور فقھاء کی تقلید سے منع کیا گیا ہو روکا گیا ہو ۔ اللہ نے جس طرح اپنی اتباع کا حکم دیا ہے، اپنے رسول کی اتباع کا حکم دیا ، اسی طرح مجتہد کی اتباع کا حکم دیا،جسے قرآن اولی الامر کہتا ہے، جسے قرآن اہل استنباط کہتا ہے۔ 
ماخوذ از الکلام المفید مولانا سرفراز خان صفدر
DIFAEAHNAF دفاع احناف

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں