تیسری آیت :۔
اللہ تعالی مومن کو پہلے یہ حکم دیتے ہیں کہ اگر ماں باپ تجھے شرک کرنے پر مجبور کرتے ہیں تو ان کی اطاعت نہ کرنا ۔ ہاں دنیوی امور میں ان کا ساتھ دیتے
رہنا ۔ پھر ارشاد فرماتے ہیں ۔
واتبع سبیل من اناب الی {پ۲۱ لقمان ۲}
رہنا ۔ پھر ارشاد فرماتے ہیں ۔
واتبع سبیل من اناب الی {پ۲۱ لقمان ۲}
جو لوگ میری طرف انابت اور رجوع کرتے ہیں ۔ تو ان کے راستے کی اتباع کر ۔
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ جو بند گان خدا اللہ تعالی کی طرف انابت اور رجوع کرتے ہیں ۔ ان کی اتباع نہ صرف یہ کہ جائز ہی ہے بلکہ ضروری اور واجب بھی ہے ۔ کیونکہ واتبع صیغہ امر ہی ہے اور صیغہ امر کا وجوب پر دلالت کرتا ہے کما سیجئ انشاءاللہ تعالی ۔
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ جو بند گان خدا اللہ تعالی کی طرف انابت اور رجوع کرتے ہیں ۔ ان کی اتباع نہ صرف یہ کہ جائز ہی ہے بلکہ ضروری اور واجب بھی ہے ۔ کیونکہ واتبع صیغہ امر ہی ہے اور صیغہ امر کا وجوب پر دلالت کرتا ہے کما سیجئ انشاءاللہ تعالی ۔
علامہ آلوسی رح اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں ۔
واتبع سبیل من اناب الی بالتوحید والاخلاص با لطاعۃ و حاصلہ اتبع سبیل المخلصین { روح المعانی ص 78 ج21 }
یعنی جو لوگ توحید اور اخلاص کے ساتھ اطاعت پر گامزن ہیں تو ایسے مخلصین کے راستے کی اتباع کر اب ہم فریق ثانی سے پوچھتے ہیں کہ حضرات ائمہ اربعہ اور ان کے علاوہ دیگر حضرات ائمہ کرام کیا توحید و سنت پر قائم تھے یا نہ ؟ اور کیا اطاعت خدا تعالی اور رسول برحق کی فرمانبرداری میں اخلاص سے پیش آتے تھے یا ریا کاری بھی کرتے تھے اگر آپ یہ کہیں کہ وہ لوگ العیاذ باللہ تعالی نہ تو حید و سنت پر گامزن تھے اور نہ مخلص تھے بلکہ مشرک اور ریا کار تھے تو اسکا اثبات آپ کے ذمہ ہوگا
من ادعی فعلیہ البیان
من ادعی فعلیہ البیان
اور اگر موحد اور مخلص تھے اور یقینا ایسے ہی تھے تو حافظ ابن تیمیہ رح کے الفاظ میں ان کی اتباع واجب ٹھہری ۔
واتبع سبیل من اناب الی والامۃ منیبۃ الی اللہ تعالی فیجب اتباع سبیلھا { معارج الاصول ص 12}
واتبع سبیل من اناب الی کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امت یقینا اللہ تعالی کی طرف ہی انابت کرتی رہی ہے ۔ تو اس کے راستوں کی اتباع واجب ٹھہری ۔
جب امت منیب ہے اور فقہی طور پر اس امت کے مقتدی اور پیشوا حضرات ائمہ اربعہ بھی ہیں ۔ تو فرمائیے کہ تعلیم قران کی وجہ سے ان کی اتباع اور تقلید شرک فی الرسالت ٹھہری یا واجب ؟ ہم پہلے باحوالہ عرض کرچکے ہیں کہ اتباع اور تقلید ایک ہی چیز ہے ۔ اور جنہوں نے میں تفریق کی ہے ہم بفضلہ تعالی ان کے جوابات بھی عرض کرچکے ہیں ۔
جب امت منیب ہے اور فقہی طور پر اس امت کے مقتدی اور پیشوا حضرات ائمہ اربعہ بھی ہیں ۔ تو فرمائیے کہ تعلیم قران کی وجہ سے ان کی اتباع اور تقلید شرک فی الرسالت ٹھہری یا واجب ؟ ہم پہلے باحوالہ عرض کرچکے ہیں کہ اتباع اور تقلید ایک ہی چیز ہے ۔ اور جنہوں نے میں تفریق کی ہے ہم بفضلہ تعالی ان کے جوابات بھی عرض کرچکے ہیں ۔
قارئین کرام اچھی طرح سمجھ چکے ہوں گے کہ فریق ثانی کا یہ دعوے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کسی اور کی اتباع اور اطاعت جائز نہیں ۔ کیسا غلط دعوے ہے کیونکہ امیر کی اتباع اور اطاعت رسول کی اتباع اور اطاعت ہے اور حضرات فقہاء اور علماء کی اتباع اور اطاعت بھی رسول کی اتباع اور اطاعت ہے ۔ گویا ان کی اطاعت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں مدغم ہے جیسے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں مدغم ہے امیر خسرو صاحب کی رسیلی زبان میں
ع ۔۔۔۔ تا کس نگوید بعد ازاں من دیگرم تو دیگری
ع ۔۔۔۔ تا کس نگوید بعد ازاں من دیگرم تو دیگری
البتہ ایک چیز پیش نظر رہے کہ حضرات ائمہ کرام معصوم نہیں ہیں ۔ اس لیے ان سے خطاء اور غلطی کا صدور بمقتضائے بشریت ممکن ہے ۔ ان کے ایسے مسائل اور امور میں اطاعت جائز نہیں بلکہ اس صورت میں قران وحدیث کو ہی اپنا حکم تسلیم کرنا ضروری ہے جو لوگ جہالت یا خیانت سے قران اور حدیث سے اپنے کسی امام یا پیر کی بات کو ترجیح دیں یا ان کے مساوی سمجھیں بلکہ قران اور حدیث کی موجودگی میں حضرات ائمہ کرام اور پیران عظام کی بات سے استدلال اور احتجاج کریں تو ایسے لوگ ملحد اور زندیق ہیں ۔ ایسے لوگ واقعی شرک فی الالوہیت اور شرک فی الرسالت کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ لیکن معاف کرنا ہمیں ان سے کیا علاقہ اور نسبت ؟ بلکہ ہم تو ایسے ملاحدہ سے صاف کہتے ہیں ۔
ترسم کہ نرسی بکعبہ اے اعرابی
کیں راہ کہ تو میروی بترکستان ست
ترسم کہ نرسی بکعبہ اے اعرابی
کیں راہ کہ تو میروی بترکستان ست
ایسے زنادقہ اور دجاجلہ کے عمل اور طرز و طریق پر جمہور اہل اسلام کی تقلید کو قیاس کرنا شَیر کو شیر بنانا بلکہ اسلام کو کفر بنانے کے مترادف ہے ۔ اور مولانا روم رح کی اصطلاح میں
ع۔۔۔۔۔ گر فرق مراتب نہ کنی زندیقی ۔۔کا ارتکاب کرنا ہے ۔
DIFAEAHNAF دفاع احناف
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں