add

بیس تراویح کے دلائل پر اعتراضات کے جوابات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
بیس تراویح کے دلائل پر اعتراضات کے جوابات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

دلیل نمبر ۲

قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ اَبِیْ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ اَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ عُثْمَانَ عَنِ الْحَکَمِ عَنْ مَقْسَمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّیْ فِیْ رَمْضَانَ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَالْوِتْرَ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ ج2ص286؛معجم کبیرطبرانی ج5 ص433 )

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان شریف میں بیس رکعات نماز(تراویح)اور وتر پڑھاتے تھے۔

 
الجواب: اس روایت کے نیادی راوی ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کے بارے میں قدوری حنفی نے لکھا ہے: "قا ضى واسط كذاب" واسط کا قاضی کذاب ہے.  (التجرید / ٢٠٣ فقرہ: ٦٣٢، الحدیث: ٧٦ ص٣٨)
کذاب کئی منفرد روایت موضوع ہوتی ہے، لہٰذا یہ روایت موضوع ہے.

جواب الجواب: پہلی بات یہ جرح مفسر نہیں ہے اور جرح غیر مفسر مقبول نہیں ہوتی۔ دوسری بات جرح کے ساتھ اس کی توثیق بھی تو ثابت ہے۔چنانچہ تهذيب التهذيب ـ محقق - (1 / 126)

وقال عباس الدوري عن يحيى بن معين قال قال يزيد بن هارون ما قضى على الناس رجل يعني في زمانه أعدل في قضاء منه وكان يزيد على كتابته أيام كان قاضيا وقال ابن عدي له أحاديث صالحة وهو خير من ابراهيم بن أبي حية.لہذا صرف جرح کو لیکر اس کے توثیق سے آنکھیں بند نہ کریں۔

تیسری بات یہ ہے کہ اس کو تلقی بالقبول حاصل ہے جو کہ تصحیح حدیث کے مترادف ہے اس لئے اس کے مجروح ہونے سے اس روایت پر کوئی اثر نہیں پڑتا

DIFAEAHNAF دفاع احناف

دلیل نمبر :رویات حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ

قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ حَمْزَۃُ بْنُ یُوْسُفَ السَّھْمِیُّ حَدَّثَنَا اَبُوْالْحَسَنِ عَلِّیُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ اَہحْمَدَ الْقَصْرِیُّ اَلشَّیْخُ الصَّالِحُ حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمٰنِ بْنُ عَبْدِ الْمُؤمِنِ اَلْعَبْدُ الصَّالِحُ قَالَ؛ اَخْبَرَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدِ الرَّازِیُّ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ہَارُوْنَ حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ الْحَنَّازِعَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عَتِیْکٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ فِیْ رَمَضَانَ فَصَلَّی النَّاسَ اَرْبَعَۃً وَّعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَاَوْتَرَ بِثَلَاثَۃٍ ۔ (تاریخ جرجان لحافظ حمزۃ بن یوسف السھمی ص146)
ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رمضان شریف کی ایک رات تشریف لائے ۔لوگوں کو چار رکعات فرض، بیس رکعات نماز(تراویح)اور تین
رکعات وتر پڑھائے۔

الجواب: اس روایت کا ایک راوی  محمد بن حمید الرازی جمہور محدثین کے نزدیک مجروح ہے اور (امام) اسحاق کوسج نے فرمایا: "میں گواہی دیتا ہوں وہ کذاب تھا."
(امین اکاڑوی کی کتاب: تجلیات صفدر ج٣ ص٢٢٤، نیز دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو : ٧٦ ص٣٤-٣٥)

اس کا دوسرا راوی عمر بن ہارون بھی جمہور کے نزدیک مجروح ہے. (دیکھئے نصب  الرایہ /
٣٥١،٣٥٥،٤/٢٧٣)

جواب الجواب:

محمد بن حمید الرازی جس طرح بیس رکعات کا راوی ہے اسی طرح یہ آٹھ رکعات کا بھی راوی ہے (جو جواب آپ آٹھ میں دیں گے وہ ہماری طرف سے بیس میں قبول کرلیں)

نیز ضعیف حدیث کو جب تلقی بالقبول حاصل ہوجائےتو یہ بھی اس کی صحت کے لئے کافی ہے۔چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں شرح الموقظة في علم المصطلح ـ عبدالله السعد - (1 / 5)
ما تلقاه العلماء بالقبول ، وإن لم يكن له إسناد صحيح ۔مقبول حدیث اسے کہتےہے جس کو تلقی بالقبول حاصل ہو اگرچہ اس کی سند صحیح نہ ہو۔
علوم الحديث ( من مجموع الفتاوى ) - (18 / 16)
ومن الحديث الصحيح ما تلقاه المسلمون بالقبول فعملوا به كما عملوا بحديث الغرة فى الجنين وكما عملوا بأحاديث الشفعة وأحاديث سجود السهو ونحو ذلك فهذا يفيد العلم ويجزم بأنه صدق لأن الأمة تلقته بالقبول تصديقا وعملا بموجبه والأمة لا تجتمع على ضلالة فلو كان فى نفس الأمر كذبا لكانت الأمة قد إتفقت على تصديق الكذب والعمل
ترجمہ:صحیح احادیث میں سے بعض وہ ہیں جن کو امت مسلمہ سے تلقی بالقبول حاصل ہو پس انہوں نے اس پر عمل کیا ہو جیسا کہ جنین میں غرہ کی حدیث ،سجود سہو کی احادیث اور اس کے مثل پس یہ علم کا فائدہ دیتی ہے اور اس کے سچے ہونے کا یقین کیا جائے گا اس لئے کہ امت نے اس کو قبول کیا ہے تصدیق کے ساتھ اور اس کے موجب پر عمل کے ساتھ اور امت گمراہی پر جمع نہیں ہوسکتی پس اگر یہ نفس الامر میں جھوٹ ہو تو امت جھوٹ کے تصدیق اور اس پر عمل پر جمع ہوگی (جو کہ حدیث کے مخالف ہے کیونکہ حدیث میں اجماع امت کو محفوظ قرار دیا ہے)
اس کے علاوہ بھی مزید حوالے ہیں شرح الفیہ ،الامضاح وغیرہ کا مطالعہ کریں ان شاء اللہ طیبعت صاف ہوجائے گی۔

اعتراض نمر ۲:اس میں عمر بن ہارون ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
الجواب:عمربن ہارو البلخی ترمذی اور ابن ماجہ کا راوی ہے ۔

تذكرة الحفاظ - (1 / 248)

 ت ق-عمر بن هارون الحافظ الإمام المكثر عالم خراسان أبو حفص الثقفي۔ اس طرح دیگران کو صحیح الحدیث ،ثقہ وغیرہ کے القابات بھی ملے ہیں ۔اس لیے جرح کو لیکر توثیق سے منہ پھیرنا اچھی بات نہیں ہے۔

نیز اس روایت کو تلقی بالقبول حاصل ہے اس لئے اس کے سند پر بحث کرنے سے اس کی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا

DIFAEAHNAF دفاع احناف