چوتھی آیت :۔
وما ارسلنا قبلک الا رجالا نوحی الیھم فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون {پ 14 ۔6}
ہم نے آپ سے قبل کسی پیغمبر کو نہیں بھیجا مگر مرد {اور انسان } اہل علم سے پوچھ دیکھو اگر تم خود نہیں جانتے ۔
ہم نے آپ سے قبل کسی پیغمبر کو نہیں بھیجا مگر مرد {اور انسان } اہل علم سے پوچھ دیکھو اگر تم خود نہیں جانتے ۔
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ کم علم اور نا سمجھ کو عالم اور سمجھدار سے پوچھنا اگر واجب نہیں تو [ فاسئلو] کا صیغہ ملحوظ رکھتے ہوئے کم از کم مستحب تو ضرور ہے ۔ اگر وہ عالم زندہ ہے تو اس سے مشافہۃ پوچھا جائے اور اگر وہ فوت ہوچکا ہے تو اس کے بتلائے ہوئے اصول اور ضوابط کی طرف مراجعت کرلی جائے ۔
حضرت امام رازی اور علامہ آلوسی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ
ان من الناس من جوّز التقلید للمجتہد لھذہ الآیۃ فقال لما لم یکن احد المجتہدین عالما وجب علیہ الرجوع الی المجتہد العالم لقولہ تعالی فاسئلوا الآیۃ فان لم یجب فلا فلا اقل من الجواز {تفسیر کبیر ص 19 ج 19۔۔۔ص 148 ج 14 واللفظ لہُ}
بلا شبہ بعض لوگوں نے مجتہد کے لیے اس آیت کریمہ ست تقلید کا جواز ثابت کیا ہے وہ {بقول امام رازی } یوں کہ جب مجتہدین میں سے کوئی کسی چیز کو نہیں جانتا تو اس پر مجتہد عالم کی طرف رجوع کرنا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ تم سوال کرو الخ اگر رجوع کرنا واجب نہ ہو تو جواز سے کیا کم ہوگا ؟
جب بعض مسائل میں مجتہد کو اپنے سے بڑے مجتہد عالم سے پوچھنا جائز ہے تو ایک عامی اور جاہل کو پوچھنا کیوں جائز نہ ہوگا ؟
بلا شبہ بعض لوگوں نے مجتہد کے لیے اس آیت کریمہ ست تقلید کا جواز ثابت کیا ہے وہ {بقول امام رازی } یوں کہ جب مجتہدین میں سے کوئی کسی چیز کو نہیں جانتا تو اس پر مجتہد عالم کی طرف رجوع کرنا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ تم سوال کرو الخ اگر رجوع کرنا واجب نہ ہو تو جواز سے کیا کم ہوگا ؟
جب بعض مسائل میں مجتہد کو اپنے سے بڑے مجتہد عالم سے پوچھنا جائز ہے تو ایک عامی اور جاہل کو پوچھنا کیوں جائز نہ ہوگا ؟
دیکھئے آج نہ تو حضرت امام بخاری رح زندہ ہیں ۔۔۔ اور نہ حضرت امام ابو عبد الرحمن بن ابی حاتم رح ۔نہ امام مزی رح موجود ہیں اور نہ علامہ ذہبی رح اور حافظ ابن حجر رح وغیرہ ۔ کہ جن سے ہم رجال کے متعلق سوال کریں ۔ مگر حضرت امام بخاری کی کتب تاریخ ۔ امام ابن ابی حاتم کی کتاب العلل ۔ امام مزی رح کی تہذیب الکمال علامہ ذہبی رح کا تذکرہ اور میزان الاعتدال اور حافظ ابن حجر کی تہذیب اور لسان وغیرہ موجود ہیں ۔ جن کے مطالعہ کرنے سے ہمیں رجال کی توثیق یا تضعیف پر پورا پورا اطمینان ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح اگر چہ آج نہ تو حضرت امام ابوحنیفہ رح اور حضرت امام مالک رح موجود ہیں ۔ اور نہ حضرت امام شافعی رح اور حضرت امام احمد بن حنبل رح اور نہ دیگر ائمہ کرام رح تاکہ ہم معانی حدیث سے متعلق ان سے پوچھیں ۔ لیکن ان کی اور انکے معتبر تلامذہ کی کتابیں اور ان کے بیان کردہ اصول تو ہمارے پاس موجود ہیں ۔ اس لیے ہمیں ان کی طرف رجوع کرنے کے بعد قران اور حدیث کے سمجھنے میں بہت کم ٹھوکر لگ سکتی ہے ۔
بخلاف اس کے آپ دیکھ لیں کہ فرق باطلہ ، معتزلہ ، خوارج ، روافض ، جہمیہ ، اور کرامیہ وغیرہ کو کہ اپنے خودتراشیدہ اصول کے مطابق اور اپنے ذہن نارسا پر بھروسہ کرنے کی بدولت ان کو قران اور حدیث میں کتنی تحریف کرنی اور کس قدر ٹھوکریں کھانا پڑیں ۔ آج بھی آپ باطل فرقوں کو مثلاً قادیانی ،چکڑالوی ، اور زمانہ حال کے مشرکین اور مبتدعین کو دیکھ لیجئے کہ کس طرح وہ قران اور حدیث کے معانی بگاڑتے ہیں ۔ اور اپنے باطل اور فرسودہ عقائد کے اثبات میں کس طرح آسمان سے ریسمان بناتے ہیں ۔
اگر ہم حضرت امام بخاری وغیرہ سے رجال حدیث کے متعلق سوال کرسکتے ہیں اور ضرور کرنا چاہیے تو حضرت امام ابوحنیفہ رح اور حضرت امام شافعی رح وغیرہ سے ہم کیوں معانی حدیث کا سوال نہیں کرسکتے ؟ اور اگر پہلی چیز شرک نہیں تو دوسری چیز کیوں شرک ہے ؟ یا اگر دوسری چیز شرک ہے ہے تو پہلی چیز کیوں شرک نہیں ؟
الحاصل نادان اور بےسمجھ کا اہل علم سے سوال کرنا اور پوچھنے کے بعد اس کی بات پر بھروسہ اور اطمینان کرنا اگر ناجائز ہوتا تو اللہ تعالی اہل علم سے پوچھنے کا کیوں حکم دیتے ؟ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیوں فرماتے کہ ۔
انما شفاء العی السوال [ مشکوۃ ص ۵۵ ج ۱] یقینا ناواقف کا علاج اور شفاء اسی میں ہے کہ وہ واقف کار سے پوچھے
انما شفاء العی السوال [ مشکوۃ ص ۵۵ ج ۱] یقینا ناواقف کا علاج اور شفاء اسی میں ہے کہ وہ واقف کار سے پوچھے
اس کی مفصل بحث انشاء اللہ العزیز آرہی ہے ۔ اگر مجیب کی بات سائل کے لیے حجت اور دلیل نہیں تو سائل کو کیوں ایک مہمل چیز کے پیچھے لگا دیا گیا ہے ؟
تقلید ائمہ کرام ؒ کا مقصد بھی اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ لا علم مقلد جو ایک قسم کا سائل ہے ہر مسئلہ کی تحقیق فقیہ اور عالم سے پوچھے اور اس پر عمل کرے ۔ اگر وہ مسئلہ قران وحدیث میں ہوگا تو مقلد اپنے امام کی عقل ، علم اور دیانت پر بھروسہ کرے گا ، تاکہ خود اس سے حضرت عدی بن خاتم ؓ کی طرح سیاہ اور سفید دھاگے میں فرق نہ کرسکنے کی غلطی واقع نہ ہوجائے ۔ جس کی تحقیق انشاء اللہ العزیز آئندہ عرض ہوگی ۔
تقلید ائمہ کرام ؒ کا مقصد بھی اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ لا علم مقلد جو ایک قسم کا سائل ہے ہر مسئلہ کی تحقیق فقیہ اور عالم سے پوچھے اور اس پر عمل کرے ۔ اگر وہ مسئلہ قران وحدیث میں ہوگا تو مقلد اپنے امام کی عقل ، علم اور دیانت پر بھروسہ کرے گا ، تاکہ خود اس سے حضرت عدی بن خاتم ؓ کی طرح سیاہ اور سفید دھاگے میں فرق نہ کرسکنے کی غلطی واقع نہ ہوجائے ۔ جس کی تحقیق انشاء اللہ العزیز آئندہ عرض ہوگی ۔
صحیح بخاری ص ۹۸۱ ج ۲ اور صحیح مسلم ص ۶۹ ج۲ کی ایک حدیث میں یہ جملہ بھی موجود ہے کہ ایک صحابی ؓ نے آنحضرت ﷺ کے سامنے ذکر کیا فسالت اھل العلم فاخبرونی [ الحدیث]
اس موقع پر ان اھل علم کا جو فیصلہ تھا وہ شرعا ً غلط تھا ۔ اس کی آپ ﷺ نے پرزور تردید فرمائی لیکن اہل علم سے دریافت کرنے کے سلسلے میں آپ ﷺ نے کوئی گرفت نہیں فرمائی ۔ کہ تم نے اہلِ علم سے سوال کیوں کیا ۔ اور ہمارا استدلال بھی صرف اِسی شق سے ہے ۔ جس سے معلوم ہوا کہ اہلِ علم سے سوال کرنا ناجائز نہیں ۔ ورنہ آپ خاموش نہ رہتے ۔ ضرور منع کرتے ۔ تو یہ تقریری حدیث بھی قولی حدیث کے موافق ہے کہ لا علمی میں اہل علم سے سوال کرنا چاہیئے ۔
اعتراض:
فریق ثانی اس آیت کے متعلق بعض مفسرین کرام ؒ کے کچھ اقوال نقل کیا کرتا ہے کہ اہل الذکر ست تو علماء یہود مراد ہیں ۔ اس لیے اس آیت کریمہ میں سوال کرنا عام نہ ہوگا ۔ جس میں حضرات فقہاء اسلام بھی شامل ہوں ۔ بلکہ محض یہودی علماء سے سوال کرنا مراد ہے چنانچہ فتاوی نذیریہ ص ۱۶۳ ج ۱ میں ہے کہ آیت میں اہل الذکر سے مراد اہل کتاب ہیں ۔ اور اس آیت کے مخاطب کفار مکہ ہیں الخ اس آیت سے تقلید حضرات ائمہ کرام ؒ پر استدلال کرنا تام نہیں ۔
الجواب :
فریق ثانی کی یہ ایک صریح کوتہ فہمی ہے ۔کیونکہ جمہور اہل اسلام کا اسی پر اتفاق ہے کہ عمومات ِ قران کو اسباب ِ نزول پر پابند کرنا باطل ہے کیونکہ کوئی آیت بظاہر ایسی نہیں جس کا شان ِ نزول خاص نہ ہو ۔ مگر اس کا کوئی بھی قائل نہیں کہ اس آیت کا حکم اسی خاص سبب کے ساتھ خاص ہے بلکہ تا قیامت اس کا حکم باقی رہے گا ۔ تاوقتیکہ اس کے مخصوص اور منسوخ ہونے پر کوئی نص قاطع موجود نہ ہو ۔ چنانچہ امام شافعی ؒ [ کتاب الام ص ۲۴۱ ج ۵ ] حافظ ابن تیمیہ ؒ [الصارم المسلول ص۵۰ میں ] حافظ ابن القیم ؒ [بدائع الفوائد ص ۱۶۱ ج۳] حافظ ابن کثیر ؒ [تفسیر ص۹میں ] حافظ ابن حجر ؒ [فتح الباری ص ۱۴۳ ج ۸میں] امام جلال الدین سیوطی ؒ [ الاتقان ص ۷۴ ج۱اردویہ میں ] قاضی شوکانی ؒ [ نیل الاوطار ص۱۴۹ ج۲ میں ] اور نواب صدیق حسن خان ][بدور الاہلہ ص ۲۰۹ میں ] لکھتے ہیں ۔ کہ عبرت بعموم لفظ است نہ بخصوص سبب چنانکہ در اصول مقرر شدہ [ واللفظ لبدور الاہلہ ص ۲۰۹ ]
اعتبار عموم لفظ کا ہوتا ہے ۔ خصوص سبب کا اعتبار نہیں ہوتا چنانچہ یہ بات اصول میں طے ہوچکی ہے
اور فتاوی نذیریہ میں ایک مقام میں لکھا ہے
اب جو کوئی کہے کہ یہ آیات کفار کے حق میں وارد ہیں تو وہ بڑا جاہل اور بے وقوف ہے ۔ کیونکہ اعتبار عموم لفظ کا ہے نہ کہ خصوصِ محال کا ۔ جیسا کہ جابجا کتب احادیث اور کتب ِ اصول فقہ و استدلالات صحابہ کرامؓ سے واضح ہوتا ہے الخ [ص ۱۹۵ ج۲]
جب یہ بات طے شدہ ہے کہ خصوص ِ سبب کا کوئی اعتبار نہیں ۔ بلکہ عموم الفاظ کا ہی اعتبار ہوگا ، تو اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ شان ِ نزول کے لحاظ سے اہل الذکر سے مراد یہودی علماء تھے تو بھی فریق ثانی کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا ۔کیونکہ اعتبار عموم ِ الفاظ ہی کا ہوتا ہے ۔ اس لیے اس میں علماء یہود کی تخصیص ہر گز نہیں ہوسکتی ۔ بلکہ ہر عالم سمجھدار اور صاحب ِ فہم و فراست اس میں شامل ہے ۔ اور لاعلمی کے وقت ہر ایسے بزرگ سے جو عالم ہو سوال کرنا واجب اور کم از کم مستحب اور جائز ضرور ہے ۔
لطیفہ:
چونکہ بظاہر فریق ثانی قران کریم کی آیات کے اسباب ِ نزول پر پابند رہنے کا قائل معلوم ہوتا ہے ۔ اس لیے ہم قران کریم کے بے شمار مقامات اور مواقع سے قطع نظر کرکے فقط ایک ہی محل پیش کرتے ہیں امید ہے کہ فریق ثانی ٹھنڈے دل سے غور فرماکر کچھ ارشاد فرمائیگا ۔ اللہ تعالی نے مشرکین مکہ اور اہل عرب کے خانہ ساز عقائد کے تار اور پود بکھیرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے ۔
قل تعالوا اتل ما حرم ربکم علیکم الا تشرکوا بہ شیئا الخ الایات پ ۸ الانعام
.آپ کہ دیجئے کہ [جن اشیاء کوتم نے حرام ٹھہرالیا ہے وہ تو حرام نہیں ہاں البتہ ] آو میں تمہیں پڑھ کر سناتا ہوں کہ تمہارے رب نے تم پر کیا کیا چیزیں حرام کی ہیں ۔
رب نے یہ چیزیں حرام کی ہیں کہ اس کے ساتھ شریک ٹھہراو ۔ اور حکم دیا ہے کہ اولاد کو قتل نہ کرو ۔ فواحش کے قریب نہ جاو ۔ قتل ناحق کا ارتکاب نہ کرو ۔ یتیم کا مال نہ کھاو الخ وغیرہ وغیرہ ۔
رب نے یہ چیزیں حرام کی ہیں کہ اس کے ساتھ شریک ٹھہراو ۔ اور حکم دیا ہے کہ اولاد کو قتل نہ کرو ۔ فواحش کے قریب نہ جاو ۔ قتل ناحق کا ارتکاب نہ کرو ۔ یتیم کا مال نہ کھاو الخ وغیرہ وغیرہ ۔
چونکہ ان آیات میں خطاب [بذریعہ پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام ] مشرکین سے ہے ۔ اس لیے فریق ِ ثانی کے خانہ ساز قاعدہ کے بموجب ان آیات کا شانِ نزول ہی وہی لوگ ہیں اور مومنوں کے لیے ان اشیاء کی حرمت ان آیات سے ثابت نہ ہوگی ۔ کیونکہ شان ِ نزول میں فقط مشرکین ہی تھے ۔ و [ علی] ہذا القیاس ان کے علاوہ دیگر بھی بے شمار آیات کے متعلق بھی یہی کہنا ہوگا ۔ اب دیکھئے کہ فریق ثانی کس منطق سے کام لیتا ہے اور اس کا جواب کیا ارشاد فرماتا ہے ۔
ڈبو دے میری کشتی شوق سے اے ناخدا لیکن
الم سے ہوگیا شق دامن ِ ساحل تو کیا ہوگاDIFAEAHNAF دفاع احناف
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں