۱)کتاب اللہ ۲)سنت
رسول ﷺ ۳)اجماع امت ۴)قیاس
دلائل:(القرآن الكريم) -
ذلک الکتاب لاریب فیہ
ھدی للمتقین۔سورۃ البقرہ :۲
ترجمہ:یہ وہ عظیم الشان کتاب جس میں کوئی شک و شبہ نہیں
۔اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے راہ نما ہے۔
سنت نبوی: سورۃ الاحزاب
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ
فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ
شَدِيدُ الْعِقَابِ (7)
ترجمہ؛اور اللہ کا رسول ﷺجو کچھ (حکم )تم کو دے اس کو لے لو(عمل کرو)اور جس سے منع کرے اس سے
رک جاو اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ سخت عذاب (دینے )والا ہے۔
اجماع امت:سورۃ النساء :۱۱۵
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن
بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ
نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ (115)
اور جو شخص ھدایت واضح ہونے کے بعد بھی رسول ﷺ کی مخالفت
کرے اور اہل ایمان کےراستے کے علاوہ کی پیروی کرے
تو جدھر کو وہ چلتا ہے ہم چلنے دیتے ہیں اور اس کو جھنم میں داخل کریں گے ۔
قیاس:سورۃ الحشر ۲
فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الأَبْصَارِ
ترجمہ:عبرت حاصل کرو اے عقل مندوں۔
تفسير البيضاوى ـ موافق للمطبوع - (5 / 317)
فاعتبروا يا أولي الأبصار ( فاتعظوا بحالهم فلا
تغدروا ولا تعتمدوا على غير الله واستدل به على أن القياس حجة من حيث أنه أمر
بالمجاوزة من حال إلى حال وحملها عليها في حكم لما بينهما من المشاركة المقتضية له
على ما قررناه في الكتب الأصولية
ترجمہ: فاعتبروا يا أولي الأبصار یعنی ان کے حال سے عبرت
حاصل کرو پس دھوکہ نہ کرو اور اللہ کے علاوہ کسی پر اعتماد نہ کرو ۔اس آیت سے قیاس
کے حجت ہونے پر استدلال کیا گیا ہے ۔
چار اصولوں کا ثبوت احادیث مبارکہ سے:
الموطأ - رواية يحيى الليثي - (2 / 899)
وحدثني عن مالك انه بلغه ان رسول الله صلى الله
عليه و سلم قال :تركت فيكم أمرين لن تضلوا ما تمسكتم بهما كتاب الله وسنة نبيه
امام مالک رحمہ اللہ مرسلا روایت کرتے ہیں کہ میں تم میں دو
چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں جب تک تم اس کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے ہرگز گمراہ نہ
ہوگے۔کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ۔
سنن أبي داود ـ محقق وبتعليق الألباني - (3 /
330)
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ عَنْ شُعْبَةَ
عَنْ أَبِى عَوْنٍ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَمْرِو بْنِ أَخِى الْمُغِيرَةِ بْنِ
شُعْبَةَ عَنْ أُنَاسٍ مِنْ أَهْلِ حِمْصَ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- لَمَّا أَرَادَ أَنْ يَبْعَثَ
مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ قَالَ « كَيْفَ تَقْضِى إِذَا عَرَضَ لَكَ قَضَاءٌ ».
قَالَ أَقْضِى بِكِتَابِ اللَّهِ. قَالَ « فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِى كِتَابِ اللَّهِ
». قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-. قَالَ « فَإِنْ لَمْ
تَجِدْ فِى سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَلاَ فِى كِتَابِ
اللَّهِ ». قَالَ أَجْتَهِدُ رَأْيِى وَلاَ آلُو. فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى
الله عليه وسلم- صَدْرَهُ وَقَالَ « الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى وَفَّقَ رَسُولَ
رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِى رَسُولَ اللَّهِ ».
ترجمہ:حضرت معاذبن جبل ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب
حضرت معاذ ؓ کو یمن بھیجنے کا ارادہ کیا تو ان سے فرمایا کہ جب تیرے پاس فیصلہ
آجائےتو فیصلہ کیسے کرے گا حضرت معاذ ؓ نے فرمایا کتاب اللہ سے آپ ﷺ نے فرمایا کہ
اگر کتاب اللہ میں موجود نہ ہو تو ؟حضرت معاذ ؓ نے فرمایا کہ سنت میں تلاش
کرونگا۔آپﷺ نے فرمایا کہ اگر سنت میں بھی نہ ملے تو کیا کرے گا؟۔حضرت معاذ ؓ نے
فرمایا کہ پھر میں اپنی رائے پر اجتھاد کرونگا اور اس میں کوئی کوتاہی نہیں
کرونگا۔تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا کہ اس اللہ کے لئے
تمام تعریفیں ہیں جس نے رسول اللہﷺ کے قاصد کو اس بات کی توفیق دی جس پر رسول اللہ
ﷺ راضی ہیں۔
فائدہ :اس حدیث مبارکہ میں تین اصول یعنی قرآن ،حدیث اور
قیاس کا ذکر موجود ہے ۔
سنن الترمذي - شاكر + ألباني - (4 / 465)
دثنا أحمد بن منيع حدثنا النضر بن إسمعيل أبو
المغيرة عن محمد بن سوقة عن عبد الله بن دينار عن ابن عمر قال : خطبنا عمر
بالجابية فقال يا أيها الناس إني قمت فيكم كمقام رسول الله صلى الله عليه و سلم
فينا فقال أوصيكم بأصحابي ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم يفشوا الكذب حتى
يحلف الرجل ولا يستحلف ويشهد الشاهد ولا يستشهد ألا لا يخلون رجل بامرأة إلا كان
ثالثهما الشيطان عليكم بالجماعة وإياكم والفرقة فإن الشيطان مع الواحد وهو من
الاثنين أبعد من أراد بحبوحة الجنة فيلزم الجماعة من سرته حسنته وساءته سيئته فذلك
المؤمن
قال أبو عيسى هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه وقد رواه
ابن المبارك عن محمد بن سوقة وقد روي هذا الحديث من غير وجه عن عمر عن النبي صلى
الله عليه و سلم
قال الشيخ الألباني : صحيح
ترجمہ:حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے جابیہ
مقام میں خطبہ ارشاد فرمایا ،آپ ؓ نے
فرمایا کہ اے لوگوں جس طرح رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا تھا اس طرح میں
بھی آپ کو خطاب کر رہا ہوں ۔آپ ﷺ نے فرما یا کہ میں تمھیں اپنے صحابہ ؓ (کی
اقتداء)کی وصیت کرتاہوں پھر ان کے ساتھ ملے ہوئے (تابعین کی)کی وصیت کرتا ہوں ۔پھر
جھوٹ پھیل جائے گا یہاں تک کہ ایک آدمی سے قسم نہیں اٹحایا جائے گا پھر بھی وہ قسم
اٹحائے گا اور گواہی کے گا حالانکہ اس سے گواہی طلب نہ ہوگی ۔خبردار کوئی مرد عورت
کے ساتھ علیحدگی نہ اختیار کرتا مگر ان کا تیسرا شیطان ہوتا ہے۔تم پر جماعت کی
اتباع لازم ہے اور فرقوں سے بچتے رہو اس لئے کے شیطان ایک کےساتھ ہوتا ہے اور وہ
دو سے دور ہوتا ہے اور جو جنت کے درمیان میں جگہ چاہتا ہےوہ جماعت کو لازم پکڑے
اور جس کو اس کی اچھائی خوش کرے اور برائی سے ناخوش ہو وہ مومن ہے۔
فائدہ: اس حدیث مبارکہ میں اجماع امت کو جنت کی ضمانت قرار
دیا اور جماعت سے علیحدگی کو شیطان کے قریب تر قرار دیا۔
DIFAEAHNAF دفاع احناف
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں