قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ اَبِیْ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ہَارُوْنَ قَالَ اَنَا اِبْرَاھِیْمُ بْنُ عُثْمَانَ عَنِ الْحَکَمِ عَنْ مَقْسَمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّیْ فِیْ رَمْضَانَ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَالْوِتْرَ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ ج2ص286؛معجم کبیرطبرانی ج5 ص433 )
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان شریف میں بیس رکعات نماز(تراویح)اور وتر پڑھاتے تھے۔
الجواب: اس روایت کے نیادی راوی ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کے بارے میں قدوری حنفی نے لکھا ہے: "قا ضى واسط كذاب" واسط کا قاضی کذاب ہے. (التجرید / ٢٠٣ فقرہ: ٦٣٢، الحدیث: ٧٦ ص٣٨)
کذاب کئی منفرد روایت موضوع ہوتی ہے، لہٰذا یہ روایت موضوع ہے.
جواب الجواب: پہلی بات یہ جرح مفسر نہیں ہے اور جرح غیر مفسر مقبول نہیں ہوتی۔ دوسری بات جرح کے ساتھ اس کی توثیق بھی تو ثابت ہے۔چنانچہ تهذيب التهذيب ـ محقق - (1 / 126)
وقال عباس الدوري عن يحيى بن معين قال قال يزيد بن هارون ما قضى على الناس رجل يعني في زمانه أعدل في قضاء منه وكان يزيد على كتابته أيام كان قاضيا وقال ابن عدي له أحاديث صالحة وهو خير من ابراهيم بن أبي حية.لہذا صرف جرح کو لیکر اس کے توثیق سے آنکھیں بند نہ کریں۔
تیسری بات یہ ہے کہ اس کو تلقی بالقبول حاصل ہے جو کہ تصحیح حدیث کے مترادف ہے اس لئے اس کے مجروح ہونے سے اس روایت پر کوئی اثر نہیں پڑتا
DIFAEAHNAF دفاع احناف
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں