add

بیس رکعات تراویح عھد فاروقی میں

بیس رکعات تروایح عہد فاروقی میں

روایت نمبر 1 ۔ 

امام ابو بکر بن ابی شیبہ فرماتے ہیں :


حدثنا وکیع عن مالک عن یحییٰ بن سعید ان عمر بن الخطاب ( رضی اللہ عنہ ) امر رجلا ان یصلی بھم عشرین رکعۃ ۔ 
ترجمہ ۔ حضرت یحییٰ بن سعید انصاری ؒ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی ( حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ) کو حکم فرمایا کہ وہ لوگوں کو بیس 20 رکعات تروایح پڑھائے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 3/285 )

سند کا حال

1 ۔امام ابو بکر بن ابی شیبہ ؒ بالاتفاق ثقہ امام ہیں ۔ حافظ ذہبی ؒ ان کے بارے میں لکھتے ہیں ۔ الحافظ عدیم النظر ، الثبت التحریر ۔ ( تذکرۃ الحفاظ 2/432 )
2 ۔وکیع بن جراح الکوفی ؒ ۔ حافظ ذہبی ؒ آپ کے بارے میں فرماتے ہیں : الحافظ ۔ الامام الثبت ، محدث العراق ، احد الائمۃ الاعلام ۔ ( تذکرۃ الحفاظ 2/282 ) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں : ثقہ ، حافظ ، عابد ، ( تقریب التہذیب 2/284 ) مولانا عبد الرحمان مبارکپوری لکھتے ہیں : احد الائمۃ الاعلام ثقۃ حافظ ۔ ( تحفۃ الاحوذی 2/24 ) مولانا شمس الحق عظیم آبادی غیر مقلد لکھتے ہیں : احد الائمۃ الاثبات ۔ ( التعلیق المغنی 2/17 )
3 ۔ امام مالک بن انس ائمہ اربعہ میں سے ایک جلیل القدر امام ہیں ، ان کی ثقاہت اور جلالت قدر پر پوری امت کا اتفاق ہے ۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں : الفقیہ ، امام دار الھجرۃ ، راس المتقنین وکبیر المثبتین ۔ ( تقریب 2/151 )
4 ۔ یحییٰ بن سعید انصاری التابعی ۔ امام احمد۔ یحییٰ بن معین ۔ ابو حاتم ، ابن حبان ، عجلی وغیرہ سب ائمہ رجال نے آپ کی توثیق کی ہے ۔ امام بخاری ؒ کے استاد ، امام علی بن مدینی ؒ فرماتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں کبار تابعین کے بعد یحییٰ بن سعید اور ابن شہاب جیسا کوئی تابعی نہیں ہے ۔ ( دیکھئے الجرح و التعدیل 9/149 ، تذکرۃ 1/137 وغیرہ )
یہ روایت سند کے لحاظ سے اعلیٰ درجہ کی صحیح ہے البتہ یہ روایت مرسل ہے کیوں کہ اس کے راوی حضرت یحییٰ بن سعید تابعی ؒ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا ۔لیکن مرسل روایت عند الجمہور حجت ہے ۔

حجیت مرسل کی بحث :

مرسل روایت ائمہ ثلاثہ ( امام ابو حنیفہ ؒ ، امام مالک ؒ ، امام احمد ؒ ) اور جمہور فقہاء و محدثین ( امام اوزاعی ، امام سفیان ثوری ؒ وغیرہ ) کے نزدیک مطلق حجت ہے ۔ تمام تابعین کرام بھی اس کی حجیت کے قائل ہیں ۔ ( چنانچہ علامہ ابن جریر ؒ فرماتے ہیں : اجمع التابعون باسرھم علی قبول المرسل ولم یات منھم انکارہ ولا عن احد من الامۃ الیٰ راس الماتین ، ( تدریب الراوی 1/167 ) حضرات تابعین سب کے سب بات پر متفق تھے کہ مرسل قابل قبول ہے ۔ اور تابعین سے لے کر دوسری صدی کے آخر تک کسی شخص نے اس کے حجت ہونے سے انکار نہیں کیا ۔ )
البتہ امام شافعی ؒ اور ان کے ہم فکر محدثین اور فقہاء کے نزدیک ہر مرسل روایت حجت نہیں بلکہ مرسل معتضد حجت ہے ۔ مرسل معتضد کا مطلب یہ ہے کہ اس مرسل کی تائید کسی دوسری روایت سے ( خواہ وہ مسند ہو یا مرسل ) سے ہوچکی ہو ، یا اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا اکثر علماء نے عمل کیا ہو ، ( دیکھئے مقدمہ شرح مسلم للنووی ص 17 ) شرح نخبۃ الفکر ص 51 ۔ زاد المعاد 1/103 وغیرہ ) 
مولانا عبد الرحمان مبارکپوری ؒ صاحب نے بھی تصریح کی ہے کہ مرسل معتضد سب کے نزدیک حجت ہے ۔ ( ابکار المنن ص 143/144 )
شیخ الاسلام زکریا انصاری ؒ اور حضرت شاہ ولی اللہ مھدث دہلوی صاحب ؒ نے تو یہ تعمیم کی ہے کہ مرسل روایت کا مؤید ضعیف روایت بھی ہو تب بھی وہ حجت ہے ۔ ( حاشیہ شرح نخبۃ الفکر شیخ الاسلام بحوالہ رکعات تراویح ص 65 ، حجۃ البالغہ 1/140 )
غرض مرسل معتضد سب علماء کے نزدیک حجت ہے ۔ خود غیر مقلدین علماء بھی اس کی حجیت کے قائل ہیں ۔
چنانچہ مولانا عبد الرحمان مبارکپوری صاحب ابو قلابہ کی ایک مرسل روایت کے ذیل میں لکھتے ہیں :
اگر یہ حدیث مرفوعا غیر محفوظا اورمرسلا محفوط ہے تو بھی حجت ہے کیونکہ حدیث عبادہ رضی اللہ عنہ وغیرہ سے اس کا اعتضاد ثابت ہے اور مرسل معتضد کے حجت ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے ۔ ( تحقیق الکلام 1/95 مطبوعہ عبد التواب اکیڈمی ملتان ) 
غیر مقلد محقق مولانا عبد الرؤف اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں : اگر اس بات کو نہ بھی تسلیم کیا جائے تب بھی مرسل حجت ہے کیونکہ اس کی تائید میں مرفوع صحیح روایات ہیں ۔ ( القول المقبول فی شرح صلوٰۃ الرسول ص 370 )
نیز عبد الرؤف صاحب محمد بن یحییٰ بن حبان کی ایک مرسل روایت کے بارے میں لکھتے ہیں : یہ مرسلا بھی مروی ہے اور یہ حدیث اپنے شواہد کی بنا پر صحیح ہے ۔ ( القول المقبول ص 621 طبع رابع )
علامہ شوکانی غیرمقلد امام ابن شہاب زہری کی ایک مرسل روایت سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں : وھذا وان کان مرسلا لکنہ معتضد بما سبق ، کہ یہ روایت اگرچہ مرسل ہے لیکن سابقہ روایات سے معتضد اور موئد ہے ، ( نیل الاوطار 3/349 )
مولانا صادق سیالکوٹی غیر مقلد مرسل طاؤس کو معرض استدلال میں پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں : گو یہ حدیث مرسل ہے لیکن دوسری مستند احادیث سے ملکر قوی ہوگئی ہے ۔ ( صلوٰۃ الرسول ص 188 )
ہفت روزہ الاعتصام کے مفتی مولانا ثناء اللہ مدنی ایک مرسل روایت سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں : مشا ر الیہ روایت ابو قتادہ اگرچہ منقطع ( مرسل ) ہے پھر اس میں لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہے ۔ لیکن بعض نے شواہد کی بنا پر اس کو قابل عمل سمجھا ہے ۔ ( ہفت روزہ الاعتصام 27 محرم 1420 )
ان مذکورہ بالا مثالوں سے جس طرح یہ ثابت ہوتا ہے کہ مرسل معتضد بالاتفاق حجت ہے ۔ اسی طرح یہ بات بھی اظہر من الشمس ہوگئی کہ علمائے غیر مقلدین کے نزدیک بھی کبار تابعین کی طرح صغار اور اوساط تابعین کی مرسل معتضد بھی حجت ہیں جیسا کہ آپ نے اوپر کتاب میں پڑھ لیا ہے کہ مولانا مبارکپوری صاحب اور مولانا عبد الرؤف نے ابو قلابہ کی مرسل معتضد کو حجت کہا ہے حالانکہ ابو قلابہ کو حافظ ابن حجر ؒ نے تابعین کے طبقہ ثالثہ میں شمار کیا ہے ۔ ( تقریب 1/494 )اور اس طبقہ والوں کو انہوں نے اوساط تابعین سے بتلایا ہے ( ایضا 1/25 ) 
نیز شیخ عبد الرؤف نے محمد بن یحییٰ بن حبان کی مرسل معتضد کو بھی حجت کہا ہے اور محمد بن یحییٰ کو حافظ نے طبقہ رابعہ کا راوی کہا ہے ۔ ( ایضا 2/144 ) 
حافظ ابن حجر ؒ کے نزدیک طبقہ رابعہ والے وہ ہیں جو طبقہ ثالثہ والوں کے قریب ہیں ۔ ( ایضا 1/25 )
اسی طرح قاضی شوکانی نے امام زہری کی مرسل معتضد کو حجت کہا ہے حالانکہ زہری کو بھی حافظ ابن حجر ؒ نے طبقہ رابعہ میں شمار کیا ہے ۔ ( ایضا 1/25 )
اور صادق سیالکوٹی صاحب حضرت طاؤس کی مرسل معتضد کو قوی کہہ رہے ہیں جبکہ طاؤس طبقہ ثالثہ کے ہیں جو اوساط تابعین کا طبقہ ہے ۔ ( تقریب 1/449 )
اسی طرح مولانا ثناء اللہ صاحب ابو الخلیل بصری کی مرسل سے استدلال کرتے ہیں حالانکہ وہ طبقہ سادسہ کے ہیں ، ( ایضا 1/443 ) طبقہ سادسہ والوں کو حافظ ابن حجر ؒ نے صغار تابعین کا ہم عصر قرار دیا ہے ۔ ( ایضا 1/258 )
اب جبکہ یہ علمائے کرام جن میں مولانا مبارکپوری ، قاضی شوکانی اور مولانا سیالکوٹی جیسے اکابرین غیر مقلدین بھی شامل ہیں ، صغار اور اوساط تابعین کی مراسیل معتضدہ کی حجیت کا اقرار کر رہے ہیں تو پھر آج کے بعض اصاغر غیر مقلدین کا صغار اور اوساط تابعین کی مراسیل کو یہ کہہ کر رد کردینا کہ صرف کبار تابعین کی مراسیل حجت ہیں ( انوار المصابیح ص 278/281 ) خود اپنے اکابر کی تصریحات کی روشنی میں باطل ہے ۔
علامہ ابن حزم ظاہری غیر مقلد لکھتے ہیں : جب کوئی مرسل حدیث ہو یا کوئی ایسی حدیث ہو جس کے راوی میں ضعف ہو اور ہم دیکھیں کہ سب لوگوں کا اس پر اجماع ہے اور سب اس کے قائل ہیں تو یقینا ہم یہ جان لیں گے کہ وہ حدیث صحیح ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے ۔ ( توجیہ النظر ص 50 بحوالہ تسکین الصدور ص33 )
یعنی اگر حدیث ضعیف یا مرسل ہی کیوں نہ ہو لیکن لوگوں کے عمل سے مؤید ہونے کی وجہ قابل حجت ہے ۔
اسی طرح نواب صدیق حسن خان صاحب غیر مقلد نے بھی مرسل معتضد کے حجت ہونے کی تصریح ہے ۔ ( دلیل الطالب ص 325 )
الغرض :۔
مرسل معتضد کے حجت اور صحیح ہونے پر پوری امت ( بشمول غیر مقلدین ) کا اتفاق ہے اور چونکہ حضرت یحییٰ بن سعید انصاری کی مذکورہ روایت بھی مرسل معتضد ہے اس لئے اس کی تائید دیگر کئی مسند اور مرسل روایات سے ہورہی ہے ۔ نیز اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اکثر علماء نے عمل بھی کیا ہے ۔ ( ترمزی 1/99 ) لہذا اس روایت کے حجت اور صحیح ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوسکتا ۔
مرسل کی بحث کیلئے احسن الکلام فی ترک قرات خلف الامام کا مطالعہ کریں
اس روایت یحییٰ بن سعید پر غیر مقلدانہ جرح و اعتراض اور اس کا جواب :
غیر مقلد حافظ محمد اسلم نے ابن ابی شیبہ کی روایت کا عنوان قائم کرکے لکھا ہے مروی ابن ابی شیبہ فی المصنف عن وکیع عن مالک عن یحییٰ بن سعید ان عمر بن الخطاب امر رجلا ان یصلی بھم عشرین رکعۃ ۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ )
ابن ابی شیبہ ( المصنف ) میں وکیع عن مالک عن یحییٰ بن سعید کا بیان کرتے ہیں کہ عمر بن الخطاب نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ وہ ان کو 20 رکعات پڑھائے لیکن یہ اثر بھی منقطع ہے ۔ مولانا مبارکپوری ( تحفۃ الاحوذی جلد 2 ص 85 ) میں فرماتے ہیں کہ علامہ شوق نیموی رحمہ اللہ نے اس اثر کے رجال کو ثقہ کہا ہے لیکن یحییٰ کی ملاقات حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے پس نیموی ؒ کا کہنا درست ہے کہ اثر میں انقطاع ہے اس لئے استدلال کے قابل نہیں ۔
نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے جو اثر صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہا کو 11 گیارہ رکعات تراویح پڑھانے کا حکم دیا اس کے صراحۃ مخالف ہے اور جو حکم رسول خدا ﷺ سے صحیح سند کیساتھ ثابت ہے اس کے بھی مخالف ہے ۔ ( تعداد مسنون تراویح ص 12 )

الجواب :
غیر مقلد نے حضرت یحیی بن سعید ؒ کی اس روایت پر جو جرح کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس روایت کی سند منقطع ہے کیونکہ نیموی ؒ و مبارکپوری کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید ؒ کی ملاقات حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے اور دوسرا اعتراض یہ ہے کہ بقول غیر مقلد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ کو 11 گیارہ رکعات تراویح پڑھانے کا حکم دیا ۔ یحیی بن سعید ؒ کی روایت اس کے صراحۃ مخالف ہے ۔ تیسرا اعتراض یہ ہے کہ یہ روایت حکم رسول خدا ﷺ کے بھی مخالف ہے ۔ 
غیر مقلد کے یہ تینوں اعتراض فضول ، بودے ، نکمے ، اور مردود ہیں کیونکہ علماء اہل السنت والجماعت کے پاس بیس رکعات تراویح کے ثبوت میں بیسیوں دلائل و آثار ہیں اگر دو چار پر جرح ثابت بھی ہوجائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ جب بہت سے آثار و روایات جمع ہوجائیں تو اگرچہ فردا فردا سارے ہی ضعیف ہوں لیکن سب ملکر قابل قبول ہونے کی قوت حاصل کر لیتے ہیں اور ایک دوسرے کو تقویت دے کر درجہ حسن حاصل کرلیتے ہیں جبکہ بیس رکعات تراویح کے بہت سے آثار ایسے ہیں جن پر جرح بھی نہیں ہے ۔ مثلا : حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کی روایت بالکل صحیح ہے اور اس پر غیر مقلدین نے کوئی جرح بھی نہیں کی ۔ لہذا ایسی صحیح روایت کی موجودگی میں تائید کرنے والی روایات پر جرح کرنے سے اصل مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ اس کے باوجود ہم بالترتیب غیر مقلد کے تینوں اعتراضات کا جواب دیتے ہیں ۔
انقطاع سند مسئلہ :
غیر مقلد کا پہلا اعتراض یہ ہے کہ اس اثر میں انقطاع ہے لہذا قابل استدلال نہیں جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا کہ غیر مقلد کے اعتراضات بودے قسم کے ، فضول اور گھسے پٹے ہیں سب سے پہلے اعتراض کا جواب ملاحظہ فرمائیں :
ہماری نطر میں یہ اعتراض اس لئے مردود ہے کہ ہر منقطع و مرسل روایات ناقابل استدلال نہیں ہوتی بلکہ ہر مرسل روایتیں جن کے راوی ثقہ ہوں اور ان کو کسی دوسرے طرق سے تائید و تقویت حاصل ہو تو ایسے مراسیل معتضدہ بالاتفاق حجت اور قابل استدلال ہیں ۔ مراسیل معتضدہ کو تو کسی محدث نے بھی ناقابل استدلال نہیں کہا اور الحمد للہ بیس رکعات تراویح کے اثبات میں جتنے مراسیل بھی پیش کئے جاتے ہیں وہ سب کے سب قوی ہیں اور دوسرے طرق سے ان کو تقویت بھی حاصل ہے اور حضرت یحییٰ بن سعید ؒ کی اس روایت کو بھی علماء محدثین ، مرسل قوی ، کہتے ہیں ۔( آثار السنن ص 253 )
اس مسئلہ کی پوری تحقیق پہلے گذر چکی ہے وہاں دیکھ لی جائے پس یہ مرسل قوی ہونے کی وجہ سے قابل استدلال ہے اور غیر مقلد کا اس کو ناقابل استدلال کہنا غلط اور مردود ہے ۔ غیر مقلد نے اس اثر کو اس لئے ناقابل بنایا ہے کہ نیموی ؒ اور مبارکپوری کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید ؒ کی ملاقات حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں لیکن میں پوچھتا ہوں کہ کیا نیموی ؒ اور مبارکپوری کی ملاقات یحییٰ بن سعید ؒ سے ثابت ہے ؟؟ اگر نہیں تو خود ان کی بات منقطع ہونے کی وجہ سے ناقابل استدلال ہے ۔ نیموی ؒ اور مبارکپوری کی بات منقطع و مرسل ہونے کے باوجود قابل استدلال ہے اور یحییٰ بن سعید ؒ کی بات منقطع ہونے کی وجہ سے ناقابل استدلال ہے یہ کیوں ؟؟ غیر مقلدین فیصلہ صادر فرمائیں ۔
کیا اثر یحییٰ بن سعید ؒ اثر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے خلاف ہے ؟؟
اب غیر مقلد کا دوسرا اعتراض بھی دیکھ لیجئے کہ حضرت یحییٰ بن سعید ؒ کا یہ اثر جس میں بیس 20 رکعات تراویح کا ثبوت ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صحیح اثر کے خلاف ہے جس میں انہوں نے حضرت ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما کو گیارہ رکعات تراویح پڑھانے کا حکم دیا ۔
قارئین کرام :
یہ اعتراض بھی لغو ، فضول اور مردود ہے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح اور محفوظ اثر بروایۃ بیہقی عن یزید بن خصیفہ عن السائب بن یزید یہی ہے کہ انہوں نے حضرت ابی بن کعب اور حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہما کو بیس رکعات تراویح پڑھانے کا حکم دیا تھا ۔ پس حضرت یحییٰ بن سعید ؒ کی یہ روایت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صحیح اور محفوظ حکم کے بالکل موافق ہے نہ کہ مخالف ۔
باقی رہی امام مالک ؒ کی گیارہ رکعات والی روایت تو یہ روایت کسی راوی کاوہم ہے یا گیارہ رکعات بمع وتر ایک امام کی تعداد ہے جبکہ بقیہ نماز تراویح دوسرا امام پڑھاتا تھا ۔ اس طرح بیس کی تعداد مکمل ہوتی تھی کیونکہ حضرت سائب بن یزید اور یزید بن رومان رضی اللہ عنہما کی روایت میں یہ بات وضاحت سے ثابت ہوتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما کو بیس رکعات تراویح پڑھانے کا حکم دیا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ گیارہ رکعات ایک امام کی تعداد ہے نہ کہ دونوں کی کیونکہ دونوں اماموں کی نماز تراویح کی تعداد تو بیس رکعات مسلمہ طور پر ثابت ہے اور خود امام مالک ؒ کی دوسری روایت میں آٹھ رکعات تراویح کی تردید موجود ہے کہ جب امام صاحب سورۃ بقرہ جیسی سورۃ بارہ رکعات میں ختم کرتا تو لوگ محسوس کرتے تھے کہ رعایت اور تخفیف ہوگئی ہے ۔
یا پھر گیارہ رکعات والا اثر ابتدائی اور متروک ہے ۔ کیونکہ کہ استقرار عمل تو یقینا بیس رکعات تراویح پر ہوا ہے ۔ پس ثابت ہوا کہ یحییٰ بن سعید ؒ کا اثر قوی ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صحیح اور محفوظ اثر کے عین موافق ہے اور دونوں اثروں سے بیس رکعات تراویح قطعی طور پر ثابت ہے لہذا غیر مقلد کا مخالفت بین الاثر والا اعتراض بالکل مردود اور فضول ہے ۔
کیا اثر یحییٰ بن سعید حکم رسول کے خلا ف ہے ؟؟؟
رہا غیر مقلد کا اس اثر پر تیسرا اعتراض کہ حضرت یحییٰ بن سعید ؒ کا یہ اثر جو حکم رسول ﷺ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے اس کے بھی مخالف ہے ۔
قارئین :غیر مقلد کا یہ اعتراض دراصل جھوٹ کا پلندہ ہے اور بالکل سفید جھوٹ ہے اور حضور اکرم ﷺ کی ذات بابرکات علیہ الصلوٰۃ و السلام پر سراسر بہتان ہے کیونکہ حضور ﷺ نے پوری زندگی کسی ایک صحابی کو آٹھ رکعات تراویح پڑھنے کا حکم نہیں دیا ۔ بندہ عاجز غیر مقلدیت کو چیلنچ کرتا ہے کہ پورا زور لگاکر بلکہ سر منہ کا زور لگا کر اور ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ثابت کریں کہ
رسول اکرم ﷺ نے کس وقت آٹھ رکعات تراویح کا حکم دیا ؟؟؟؟؟
رسول اکرم ﷺ نے آٹھ رکعات تراویح کا حکم کس کو دیا ؟؟؟؟
رسول اکرم ﷺ نے آٹھ رکعات تراویح کا حکم کب دیا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
آپ ﷺ کا یہ حکم کسی کتاب میں ثابت ہے ؟؟؟؟؟
آپ ﷺ کے کسی صحابی سے ثابت ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
کس راوی سے ثابت ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
حدیث کی کتاب میں ثابت ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
فقہ کی کس کتاب میں لکھا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟
واللہ باللہ:: اللہ کے رسول ﷺ نے کسی شخص کو آٹھ رکعات تراویح پڑھنے کا حکم نہیں دیا ۔۔ یہ غیر مقلد کا خالص جھوٹ اور نرا بہتان ہے جو اس نے اللہ تعالیٰ کے پاک پیغمبر کی طرف منسوب کردیا ہے ۔۔سبحانک ھذا بھتان عظیم ۔
پوری دنیائے غیر مقلدیت : حضور اکرم ﷺ کا یہ حکم ثابت کریں ۔ ورنہ آپ ﷺ کی سخت وعید کیلئے تیار رہو ۔ من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار ۔ یعنی جو شخص میری طرف جھوٹ بات منسوب کرے اسے چاہیئے کہ وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں ڈھونڈلے ۔
بہرحال حافظ محمد اسلم غیر مقلد نے جو یہ کہا ہے کہ حضرت یحییٰ بن سعید ؒ کا یہ اثر حکم رسول ﷺ کے مخالف ہے ۔ خالص کذب بیانی ہے اور نرا بہتان ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے آٹھ رکعات تراویح کا حکم زندگی بھر نہیں دیا ۔ جب حضور اکرم ﷺ سے آٹھ کا حکم ثابت نہیں ہے تو حضرت یحییٰ بن سعید ؒ کا اثر کیسے مخالف ٹھہرا ؟؟ الحمد للہ ثابت ہوگیا کہ یحییٰ بن سعید ؒ کا اثر قوی ہے اسی لئے قابل استدلال ہے یعنی انقطاع کوئی جرح نہیں ہے اور نہ یہ اثر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی کسی صحیح اور محفوظ روایت کے خلاف ہے اور نہ ہی حضور اکرم ﷺ کے کسی حکم کے مخالف ہے یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کے مطابق ہے اور حضور اکرم ﷺ کی منشاء کے بھی عین مطابق ہے ۔ 

روایت نمبر 2 : 
امام مالک ؒ فرماتے ہیں : عن یزید بن رومان انہ قال کان الناس یقومون فی زمان عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فی رمضان بثلٰث و عشرین رکعۃ ۔ 
ترجمہ : حضرت یزید بن رومان تابعی ؒ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ لوگ ( صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تابعین عظام ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کے زمانہ خلافت میں ماہ رمضان میں تئیس رکعات ( 20 تراویح اور 3 وتر ) پڑھتے تھے ۔ ( موطا امام مالک ص 40 )
حضرت یزید بن رومان ، امام مالک وغیر کے استاد اور حضرت انس حضرت عبد اللہ بن زبیر وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے شاگرد ہیں ۔ یہ بالاتفاق ثقہ تابعی ہیں ۔ امام یحییٰ بن معین ؒ ، امام نسائی اور امام ابن حبان وغیرہ نے آپ کی توثیق کی ۔ ( تہذیب التہذیب 11/325 حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی آپ کو ثقہ شمار کیا ہے ۔ ( تقریب التہذیب 2/323 )
اس روایت پر یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ منقطع ( مرسل ) ہے کیونکہ یزید بن رومان کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے ۔ 

جواب اول : 

لیکن یہ اعتراض بھی مردود ہے کیونکہ یہ روایت بھی مرسل معتضد ہے اور ابھی گذرا ہے کہ مرسل معتضد بالاتفاق حجت ہے ۔

جواب ثانی :

یہ مؤطا امام مالک کی مرسل روایت ہے اور مؤطا میں جتنی بھی مرسل روایات ہیں ان کے صحیح اور قابل حجت ہونے پر تمام محدثین کا اتفاق ہے ۔ چنانچہ امام سیوطی ؒ فرماتے ہیں ۔ ومامن مرسل فی المؤطا الاولہ عاضد ا وعواضد فالصواب ان المؤطا صحیح لا یثتثنیٰ منہ شئی ۔۔ مؤطا کی کوئی مرسل روایت نہیں ہے جس کیلئے کوئی ایک یا ایک سے زیادہ مؤید موجود نہ ہوں ۔ پس صحیح یہ ہے کہ مؤطا کی تمام روایات بلا استثناء صحیح ہیں ۔( مرقات شرح مشکوٰۃ 1/18 )
حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں : شیخ ابن عبد البر مالکی ؒ نے ایک کتاب تصنیف کی ہے جس میں مؤطا کی تمام مراسیل کا وصل ثابت کر دکھایا ہے اور لکھا ہے کہ مؤطا میں کل اکسٹھ مراسیل ہیں ۔ جن میں سے چار روایتیں ایسی ہیں جن کا اتصال ثابت کرنے سے ہم قاصر رہے ہیں ۔ باقی تمام مراسیل و منقطعات کا اتصال دوسرے طرق و اسناد سے محدثین پر واضح ہوچکا ہے ۔ اس کے بعد حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے وہ چاروں روایتیں ذکر کیں ہیں لیکن ان میں یہ مذکورہ روایت ژامل نہیں ہے ۔( مصفیٰ شرح مؤطا مطبوعہ دہلی ص 7 – 8 بحوالہ التوضیح عن رکعات التراویح ص 114 - 115 )
مولانا عبد الرحمان مباکپوری صاحب اور مولانا غلام رسول صاحب غیر مقلد حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ سے نقل کرتے ہیں : و اتفق اھل الحدیث علیٰ ان جمیع مافیہ صحیح علیٰ رائ مالک ومن وافقہ و اما علی ارئ غیرہ فلیس فیہ مرسل ولا منقطع الا قد اتصل السند بہ من طرق اخریٰ فلا جرم انھا صحیحۃ من ھذا الوجہ ۔۔
تمام محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ مؤطا میں جتنی بھی روایات ہیں ، وہ سب امام مالک ؒ اور ان کے موافقین کی رائے پر صحیح ہیں ۔ رہے دوسرے حضرات ( جو مرسل کو حجت نہیں مانتے ۔ ناقل ) تو ان کے نزدیک بھی مؤطا میں کوئی ایسی مرسل یا منقطع روایت نہیں ، جس کا دوسرے طریقوں سے اتصال ثابت نہ ہوتا ہو پس اس لحاظ سے بلاشبہ وہ (مرسل و منقطع ) روایات بھی صحیح ہیں ۔ ( مقدمہ تحفۃ الاحوذی ص 30 ، رسالہ تراویح مع ترجمہ ینابیع ص 41 ۔ بحوالہ حجۃ اللہ البالغہ 1/133 )
نیز مولانا میاں غلام رسول صاحب غیر مقلد فرماتے ہیں : صاحب کبیری نے جو یہ کہا ہے کہ یزید بن رومان کی حدیث منقطع ہے ، اس کا جواب یہ ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی ؒ نے حجۃ اللہ البالغۃ میں فرمایا ہے تمام اہل حدیث کے اتفاق سے مؤطا کی سب حدیثیں صحیح ہیں ۔ ( رسالہ تراویح مع ترجمہ ینابیع ص 42 )
مشہور غیر مقلد محدث حافظ گوندلوی صاحب ( سابق امیر جماعت اہل حدیث ) لکھتے ہیں : ائمہ حدیث کا اتفاق ہے کہ مؤطا کی جملہ احادیث امام مالک ؒ کے ہاں ضرور صحیح ہیں اور ان کے ہم خیال بھی آپ سے ان کی صحت میں متفق ہیں اور جو ان کے ہم نوا نہیں ۔ اس قدر انہین بھی تسلیم ہے کہ اس میں کوئی ایسی مرسل ، منقطع نہیں جو بسند صحیح نہ ہو ۔ ( مگر چند امور کما ثبت بالتتبع ) بلاشبہ اس حیثیت سے یہ بھی صحیح ہیں ۔ ( التحقیق الراسخ ص 16 – 17 )
مولوی محمد قاسم خواجہ غیر مقلد لکھتے ہیں : مؤطا امام مالک جس کے متعلق شاہ ولی اللہ ؒ فرماتے ہیں امام شافعی ؒ کا قول ہے یہ مؤطا کتاب اللہ کے بعد صحیح ترین کتاب ہے اور تمام اہل حدیث کا اس پر اتفاق ہے کہ اس کی تمام حدیثیں صحیح ہیں ۔( حی علی الصلوٰۃ ص 18 )
لہذا جب سب محدثین اور خود غیر مقلدین کے نزدیک بھی مؤطا کی تمام مراسل روایات صحیح ہیں تو پھر مؤطا کی مذکورہ مرسل روایت پر ان کا اعتراض فضول ہے ۔

جواب ثالث : 

یزید بن رومان کی مذکورہ حدیث کو حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے ( فتح الباری ) میں ذکر کر کے سکوت فرمایا ہے اور اس پر کسی قسم کی جرح نہیں کی اور متعدد علمائے غیر مقلدین نے تصریح کی ہے کہ حافظ ابن حجر ؒ کا کسی حدیث کو فتح الباری میں ذکر کرکے اس پر جرح نہ کرنا اس حدیث کے صحیح یا کم از کم حسن ہونے کی دلیل ہے ۔ چنانچہ مولانا عبد الرحمان مبارکپوری صاحب ایک حدیث ( جس پر حافظ ابن حجر ؒ نے سکوت کیا ہے اور جرح نہیں کی ) لکھتے ہیں : ذکرہ الحافظ ابن حجر فی فتح الباری وھو حسن عندہ علی ما اشترط فی اوائل مقدمۃ فتح الباری الخ ( ابکار المنن ص 45 )
اسی طرح ایک اور حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں : وسکت ( ابن حجر ) عن حدیث وائل و حدیث ھلب فلو کانا ایضا ضعیفین عندہ لبیّن ضعفھا ضعفھا ولانہ قال فی اوائل مقدمۃ فتح الباری الخ ( ابکار المنن ص 106 )
مولانا عبد الرؤف سندھو لکھتے ہیں : فتح الباری میں حافظ ابن حجر کا سکوت اس کے حسن ہونیکی علامت ہے ، ( القول المقبول ص 434 )
حافظ زبیر علی زئی مولانا عبد المنان نور پوری صاحب غیر مقلد کے حوالہ سے لکھتے ہیں : حافظ ابن حجر نے عتبہ بن عامر کے اثر کو فتح الباری میں نقل فرما کر سکوت فرمایا ہے ۔ لہذا ان کی شرط کے اعتبار سے یہ اثر ان کے نزدیک کم از کم حسن تو ضرور ہے ۔ ( نور العنیین ص 145 حاشیہ نمبر 1 )
الغرض یہ روایت غیر مقلدین کے مسلمات کی روشنی میں ہر لحاظ سے صحیح ہے ۔

اعتراض ثانی :

غیر مقلدین حضرات اس روایت پر یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ یہ روایت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے خالی ہے اس میں صرف یہی ہے کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بیس رکعات تراویح پڑھتے تھے ۔ اس میں اس امر کی تصریح نہیں کہ جو لوگ بیس رکعات تراویح پڑھتے تھے وہ بحکم حضرت عمر رضی اللہ عنہ پڑھتے تھے ۔( رکعات تراویح ص 19 از حافظ عبد اللہ غازی پوری ، تعداد قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ ص 70 ، از حافظ زبیر علی زئی ، تعداد تراویح ص 62 از حافظ عبد المنان نور پوری وغیرہ )

الجواب :
یہ اعتراض بھی کئی وجہ سے باطل ہے ۔
1 ۔ اگرچہ اس روایت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کی تصریح نہیں لیکن دیگر روایات میں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کی تصریح موجود ہے ۔مثلا حضرت یحییٰ بن سعید انصاری کی روایت جو ابھی گذری ہے ۔ اسی طرح حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی روایت ( دیکھئے کنز العمال 8/409 ) اور حضرت حسن بصری ؒ کی روایت ( دیکھئے سنن ابی داؤد 1/202 ) میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کی تصریح موجود ہے ۔ لہذا جن روایات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کی تصریح نہیں ان کو بھی ان کے حکم والی روایات پر محمول کیا جائے گا کیونکہ ایک حدیث دوسری حدیث کی تفسیر بیان کرتی ہے ۔ چنانچہ مولانا ارشاد الحق اثری صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں : اور اصول کا یہ مسلمہ قاعدہ ہے ۔ الحدیث یفسر بعضہ بعضا ۔ کہ ایک حدیث دوسری کی وضاحت کرتی ہے ۔ ( توضیح الکلام 1/489۔544 )
2 ۔ خود غیر مقلدین کے اکابر کو بھی یہ بات تسلیم ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جو لوگ بیس رکعات تراویح پڑھتے تھے وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم اور فرمان سے ہی پڑھتے تھے ، 
3 ۔ یہ اعتراض ہی فضول ہے کیونکہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت اور مدینہ جیسے شہر کا واقعہ ہے ( اس لئے کہ اس روایت کے راوی حضرت یزید بن رومان مدنی ہیں ۔ نیز متصل آئندہ روایت میں مدینہ منورہ کی تصریح ہے ) اور حضرت عمر رضی اللہ نے ہی لوگوں کو تراویح کی جماعت پر اکھٹا فرمایا اور اس کی ترغیب دی بلکہ آپ ﷺ کا لوگوں کے ساتھ تراویح پڑھنا بھی ثابت ہے ۔ چنانچہ مدونہ کبریٰ جلد 1 ص 194 میں ہے ۔ ان عمر رضی اللہ عنہ و عثمان رضی اللہ عنہ کانا یقومان فی رمضان مع الناس ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ لوگوں کے ساتھ تراویح پڑھتے تھے ۔ اور بخاری و مؤطا وغیرہ کے حوالہ سے یہ روایت گزر چکی ہے کہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی مقرر کردہ جماعت تراویح کا معائنہ بھی فرمایا اور اس کو نعمت البدعۃ سے تعبیر فرمایا : اس سے معلوم ہوا کہ لوگوں کا یہ بیس رکعات تراویح پڑھنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زیر علم تھا ۔ 
( مولانا نزیر رحمانی صاحب تسلیم کرتے ہیں کہ لوگوں کا بیس تراویح پڑھنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زیر علم تھا ۔ چنانچہ لکھتے ہیں : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیس ( تراویح ) پر نکیر نہیں فرمائی یہی اہل حدیث کا مذہب بھی ہے ، ( انوار المصابیح ص 233 ) 
نیز جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح کی جماعت قائم فرمائی اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو اس کا امام مقرر فرمایا تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اس کی تعداد مقرر نہ فرمائی ہو اور اسے لوگوں کی مرضی پر چھوڑ دیا ہو ؟؟ 
( جبکہ مولانا وحید الزماں غیر مقلد رقم طراز ہیں : کوئی یہ وہم نہ کرے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی طرف سے ( تراویح کی جماعت مقرر کرکے ۔ ناقل ) دین میں ایک بات شریک کردی جسکا اختیار ان کو نہ تھا ۔ اسی طرح بیس رکعات تراویح کا حکم اپنی رائے سے دے دیا ۔
حاشا وکلا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایسا کرتے بلکہ انہوں نے طریقہ نبوی ﷺ کا اتباع کیا ۔آنحضرت ﷺ کی حیات میں ایک ہی امام کے پیچھے سب نے تراویح پڑھی ۔ ایک مسجد میں متعدد جماعتیں ایک ہی وقت آنحضرت ﷺ کے عدی میں کبھی نہیں ہوئیں ۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ضرور آنحضرت ﷺ کو بیس رکعتیں تراویح کی پڑھتے ہوئے دیکھا ہوگا ۔ گو ہم تک یہ روایت بہ سند صحیح نہیں پہنچی ۔ اس کی سند میں ابو شیبہ ابر ہیم بن عثمان منکر الحدیث ہے ۔ مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ اس سے بہت پہلے تھا ۔ ان کو بہ سند صحیح یہ پہنچ گئی ہوگی یا انہوں نے خود دیکھا ہوگا ۔ ( لغات الحدیث مادہ وزغ ) مولانا وحید الزمان غیر مقلد کے اس بیان سے معلوم ہوا کہ جس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح کی جماعت قائم کی اسی طرح انہوں نے تراویح کی تعداد بھی مقرر کی تھی ) 
بالفرض مان لیا جائے کہ یہ لوگ خود اپنی مرضی سے بیس رکعات تراویح پڑھتے تھے تو کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو اس فعل سے منع فرمایا تھا ؟؟؟ ہرگز نہیں ۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا باوجود اس کا علم ہونے کے لوگوں کو اس فعل سے منع نہ فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں کے اس عمل میں ان کی رضامندی بھی شامل تھی اور ان کے نزدیک یہی سنت تھی ۔ ورنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسا متبع سنت اور عاشق رسول صحابی کیسے برداشت کرسکتا ہے کہ ان کے ماتحت رعایا کوئی غلط یا خلاف سنت کام سر انجام دیں ۔ لہذا اگر بالفرض یہ ان کی قولی یا فعلی سنت نہیں تو ان کی تقریری سنت ضرور ہے ۔ 
4 ۔ خود غیر مقلدین کے اپنے دلائل ( روایات عمر رضی اللہ عنہ ) میں سوائے مؤطا امام مالک کی روایت کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کی تصریح نہیں ہے ۔ چنانچہ مولانا نزیر احمد رحمانی غیر مقلد لکھتے ہیں : امام مالک کی روایت میں ( حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ) کے حکم دینے کا ذکر ہے اور دوسروں کی روایت میں اس کا ذکر نہیں ہے ۔ ( انوار المصابیح ص 237 )
لیکن اس کے باوجود غیر مقلدین ان روایات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کی تصریح نہ ہونے کے باوجود بھی بڑے طمطراق سے ان کا استدلال کرتے ہیں اور وہاں وہ جو عذر بیان کرتے ہیں وہ بھی ملاحظہ کریں ۔
چنانچہ یحییٰ بن سعید کی روایت کے ذیل میں حافظ عبد المنان نور پوری صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں : یہ درست ہے کہ یحییٰ بن سعید کے بیان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کا ذکر نہیں مگر اس کے بیان میں حضرت عمر رضی اللہ کے حکم کی نفی بھی تو نہیں ۔ ( تعداد تراویح ص 144 )
کیا ہم بھی غیر مقلدین سے ایسے انصاف کی توقع رکھ سکتے ہیں ۔ دیدہ باید 

روایت نمبر 3 ۔
امام ابو بکر بن ابی شیبہ ؒ روایت کرتے ہیں : ثنا حمید بن عبد الرحمٰن عن حسن عن عبد العزیز بن رفیع قال کان ابی بن کعب یصلی بالناس فی رمضان بالمدینۃ عشرین رکعت و یوتر بثلاث ۔
ترجمہ : 
حضرت عبد العزیز بن رفیع تابعی ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ( عہد فاروقی میں ) لوگوں کو مدینہ منورہ میں بیس رکعات ( تراویح ) اور تین وتر پڑھاتے تھے ۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ 3/285 )
اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے ۔سند کے پہلے راوی امام ابو بکر بن ابی شیبہ ؒ صاحب مصنف بالاتفاق ثقہ امام ہیں ۔ حافظ ذہبی ؒ ان کے بارے میں لکھتے ہیں ۔ الحافظ عدیم النظر ، الثبت التحریر ۔ ( تذکرۃ الحفاظ 2/432 )
دوسرے راوی حمید بن عبد الرحمٰن الرؤاسی ابو عوف الکوفی ہیں ۔ امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ : یہ ثقہ تھے ۔ امام احمد ؒ بھی ان کی تعریف کرتے ہیں ، امام ابن حبان ؒ نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے ، امام ابن سعد فرماتے ہیں کہ یہ ثقہ اور کثیر الحدیث تھے ۔ امام عجلی ؒ فرماتے ہیں کہ یہ ثقہ ثبت ، عاقل اور ناسک تھے ۔ امام ابو بکر بن ابی شیبہ فرماتے ہیں کہ میں نے ان جیسے لوگ کم دیکھے ہیں ۔ ( تہذیب التہذیب 3/34 ، تذکرۃ الحفاظ 1/288 )
تیسرے راوی حسن بن صالح بن حیی بھی بالاتفاق ثقہ ہیں ۔ امام احمد بن حنبل ؒ ان کو ثقہ ۔ صحیح الروایۃ اور اثبت فی الحدیث کہتے ہیں ۔ امام نسائی ؒ ، امام یحییٰ بن معین ؒ اور امام ابو حاتم ؒ بھی ان کو ثقہ بتلاتے ہیں ۔ امام ابو زرعہ ؒ فرماتے ہیں کہ حسن بن صالح میں اتقان ( روایت حدیث میں پختگی ) فقہ ، عبادت اور زہد چاروں چیزیں جمع تھیں ، عبدہ بن سلیمان کا قول ہے کہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی حسن بن صالح کو عذاب دینے سے حیا ( درگزر ) فرمائیں گے ۔ ( تہذیب الکمال 4/349 تہذیب التہذیب ) حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ آپ کے بارے میں لکھتے ہیں ، ثقہ ، فقیہ ، عابد ۔ ( تقریب 1/205 ) 
چوتھے راوی حضرت عبد العزیز بن رفیع ؒ ثقہ تابعی ہیں ۔ امام احمد ؒ ۔ امام یحییٰ بن معین ؒ ۔ امام ابو حاتم رازی ؒ اور امام نسائی ؒ وغیرہ ان کو ثقہ کہتے ہیں ، امام ابن حبان نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے ۔ امام عجلی ؒ فرماتے ہیں کہ عبد العزیز بن رفیع ؒ ثقہ تابعی ہیں ۔ امام یعقوب بن شیبہ ؒ فرماتے ہیں کہ ان کی حدیث حجت کا درجہ رکھتی ہیں ۔ ( تہذیب الکمال 11/496 تہذیب التہذیب 6/30 ) حافظ ابن حجر ؒ نے آپ کو ثقہ بتلایا ہے ۔ ( تقریب 1/603 )
اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مشہور صحابی رسول ﷺ ہیں ۔ غرض یہ روایت بالکل صحیح اور مرسل معتضد ہے جس کے حجت ہونے پر سب کا اتفاق ہے ۔

روایت نمبر 4 : 
امام ابو داؤد ؒ فرماتے ہیں : حدثنا شجاع بن مخلد نا ھیشم نا یونس بن عبید عن الحسن ؒ ان عمر رضی اللہ عنہ بن الخطاب جمع الناس علی ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فکان یصلی لھم عشرین رکعۃ ۔ 
ترجمہ ۔
حضرت حسن بصری ؒ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے لوگوں کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ( کی اقتدا ) پر اکھٹا فرمایا تو وہ لوگوں کو بیس رکعات ( تراویح ) پڑھاتے تھے ۔( سنن ابی داؤد 1/203 طبع میر کتب خانہ کراچی و مطبع مجتبائی دہلی )
اس حدیث کی سند کے راویوں کا حال ملاحظہ کریں ۔
امام ابو داؤد سلیمان بن الاشعث السجستانی ؒ جو ثقہ حافظ اور سنن ابی داؤد وغیرہ کے مصنف اور بڑے علماء محدثین میں سے ہیں ۔( تقریب التہذیب 1/382 )
شجاع بن مخلد الفلاس البغوی : امام ابن معین ؒ ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں ان کو پہچانتا ہوں ، ان میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہ بہت اچھے شیخ ( بزرگ ) اور ثقہ ہیں ، امام ابن حبان ؒ نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے ، امام ابو زرعہ ؒ اور امام احمد ؒ ان کو ثقہ کہتے ہیں ۔ امام ابن قانع ؒ اور حسین بن فھم ؒ فرماتے ہیں کہ یہ ثقہ اور ثبت ہیں ۔ ( تہذیب التہذیب 4/312 )حافظ ابن حجر ان کو صدوق لکھتے ہیں ۔ ( تقریب التہذیب 1/412 )
ھیشم بن بشیر السلمی الواسطی ثقہ راوی ہیں ۔ امام ابن مھدی ؒ ، امام عجلی ؒ ، امام ابو حاتم ؒ ، امام ابو زرعہ ؒ ، امام ابن سعد ؒ وغیرہ محدثین نے ان کو ثقہ ، صدوق اور حافظ قرار دیا ہے ۔ البتہ یہ مدلس راوی ہیں ۔ لیکن انہوں نے یہ حدیث انا ( اخبرنا ) سے بیان کی ہے لہذا ان کا مدلس ہونا یہاں مضر نہیں ۔ چنانچہ امام ابن سعد ؒ فرماتے ہیں : کان ثقہ کثیر الحدیث ثبتا یدلس کثیرا فما قال فی حدیثہ انا فھو حجۃ و ما لم یقل فلیس بشئی ۔ ھیشم ثقہ ،کثیر الحدیث ، ثبت اور کثیر التدلیس ہیں پس جب یہ جس حدیث میں انا ( اخبرنا ) کہیں تو وہ حجت ہیں اور جب یہ لفظ نہ کہیں تو پھر یہ کوئی شئی نہیں ہیں ۔ ( تہذیب التہذیب 11/59 )
یونس بن عبید العبدی ثقہ تابعی اور صحاح ستہ کے راوی ہیں ۔ حافظ ابن حجر ان کے بارے میں لکھتے ہیں : ثقۃ ثبت فاضل ورع ۔ ( تقریب التہذیب 2/349 )
امام حسن بن ابو الحسن بصری ؒ مشہور اور جلیل القدر امام ہیں ۔ حافظ ابن حجر ؒ ان کے بارے میں ارقام فرماتے ہیں : ثقہ فقیہ ۔ فاضل مشہور ۔ ( تقریب التہذیب 1/202 )
( ف ) سنن ابی داؤد کا وہ نسخہ جو حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب ؒ کی تصحیح کے ساتھ مطبع مجتبائی دہلی سے طبع ہوا تھا اس میں یہ روایت عشرین رکعۃ کے الفاظ سے نقل ہوئی ہے اور اس کے حاشیہ پر یہ عبارت بھی لکھی ہوئی ہے ۔ کذا فی نسخۃ مقروئۃ علی الشیخ مولانا محمد اسحاق ؒ یعنی اسی طرح عشرین رکعۃ کے الفاظ اس نسخہ میں ہیں جو مولانا محمد اسحاق صاحب دہلوی ؒ ( جو غیر مقلدین کے شیخ الکل مولانا نزیر حسین دہلوی صاحب کے بھی استاد ہیں ) کے سامنے پڑھا جاتا تھا ۔ اسی طرح شمس الدین الذھبی ؒ المتوفیٰ 748 ء ( جو بالاتفاق ثقہ اور معتبر امام ہیں ) نے بھی یہی روایت سنن ابی داؤد کے حوالہ سے عشرین رکعۃ کے الفاظ کے ساتھ نقل فرمائی ہے ۔ ( سیر اعلام النبلاء 1/404 )
اسی طرح حافظ ابن کثیر ؒ المتوفیٰ 774 ھ اور امام ابن قدامہ حنبلی ؒ المتوفیٰ 620 ھ نے بھی یہ روایت بحوالہ سنن ابی داؤد عشرین رکعۃ کے الفاظ سے نقل کی ہے ۔ ( جامع المسانید و السنن رقم الحدیث 26 المغنی 2/ بحوالہ تنبیہ الغافلین ص 31 – 35 ) 
لیکن مشکوٰۃ تحفۃ الاشراف وغیرہ میں یہ روایت عشرین رکعۃ کے بجائے عشرین لیلۃ کے الفاظ سے درج ہے ۔ اب موجودہ غیر مقلدین ان حوالوں کو لیکر یہ واویلا کرتے ہیں کہ عشرین رکعۃ والا نسخہ محرّف ہے اور دیوبندیوں کے شیخ الہند نے اس میں تحریف کرکے عشرین لیلۃ کو عشرین رکعۃ بنادیا ہے لیکن غیر مقلدین کا یہ محض غیر مقلدانہ واویلا اور جاہلانہ شور شرابہ ہے کیونکہ حضرت شیخ الہند کی ولادت 1268 ھ میں ہوئی جبکہ ان کی ولادت سے بھی کئی سو سال پہلے امام ذہبی ؒ حافظ ابن کثیر ؒ اور حافظ ابن قدامہ ؒ وغیرہ محدثین نے یہی روایت عشرین رکعۃ سے نقل فرمائی ہے اور شیخ الہند کی ولادت سے کئی عرصہ پہلے مسند الہند حضرت شاہ اسحاق دہلویؒ کے سامنے بھی یہی عشرین رکعۃ والا نسخہ پڑھا جاتا تھا ۔ اور اگر مولانا نزیر حسین دہلوی صاحب غیر مقلد شاہ اسحاق صاحب کے شاگرد ہیں تو انہوں نے بھی دوران سبق یہی نسخہ حضرت شاہ صاحب سے پڑھا ہوگا ۔ تو کیا اب غیر مقلدین حضرات ان سب بزرگوں کو بھی شیخ الہند کی طرح محرّف اور غلط کا ہونے کا الزام لگائیں گے ۔ دیدہ باید ۔ لیکن
ع مشکل بہت پڑے گی برابر کی چوٹ ہے 
غیر مقلدین عشرین رکعۃ والے نسخہ کو غلط ثابت کرنے کیلئے جو دلائل ذکر کرتے ہیں کہ فلاں فلاں کتاب میں یہ روایت عشرین لیلۃ کے ساتھ درج ہے تو یہ دلائل ہمارے دعویٰ کے خلاف نہیں ہیں اور نہ ہی ان سے عشرین رکعۃ والے نسخہ کا محرّف ہونا لازم آتا ہے کیونکہ ان سے تو صرف عشرین لیلۃ والے نسخہ کا اثبات ہوتا ہے کہ عشرین لیلۃ والا نسخہ بھی ثابت ہے اور اس میں ہمیں کوئی انکار نہیں کیونکہ ہمارا دعویٰ یہ نہیں کہ ہر نسخہ میں عشرین رکعۃ کے الفاظ ہیں بلکہ ہمارا دعویٰ تو یہ ہے کہ ابوداؤد کے بعض نسخوں میں یہ روایت عشرین رکعۃ کے ساتھ ہے اور بعض نسخوں میں عشرین لیلۃ کے ساتھ درج ہے ۔ حضرت شیخ الہند ؒ کے نسخہ کا محرّف ہونا تب لازم آتا جب غیر مقلدین کم از کم کسی ایک ہی معتبر محدث کا حوالہ پیش کر دیتے کہ عشرین رکعۃ والا نسخہ محرّف ہے ۔ لیکن یہ بات غیر مقلدین قیامت کی صبح تک ثابت نہیں کرسکتے ۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اس کے برخلاف ہم نے امام ذہبی ؒ وغیرہ چوٹی کے محدثین کے حوالہ سے ثابت کیا ہے کہ عشرین رکعۃ والا نسخہ ثابت ہے ۔ باقی اگر کسی نسخہ میں عشرین رکعۃ کے الفاظ نہیں اور اس کے بجائے عشرین لیلۃ کے الفاظ ہیں تو اس سے عشرین رکعۃ والے نسخہ کا محرّف یا الحاقی ہونا لازم نہیں آتا کیونکہ مشہور غیر مقلد محقق مولانا عبد الرحمان مباکپوری صاحب نے تصریح کی ہے کہ : کتب حدیث میں متعدد روایات اور عبارات ایسی ہیں جو بعض نسخوں میں ہیں اور بعض نسخوں میں نہیں مگر کوئی بھی ان کو الحاقی نہیں بتلاتا ۔ ( تحقیق الکلام 2/149 )
لہذا اگر کسی نسخہ میں عشرین رکعۃ کے بجائے عشرین لیلۃ کے الفاظ درج ہیں تو اس سے عشرین رکعۃ والے نسخہ کا محرّف ہونا لازم نہیں آتا کیونکہ عشرین رکعۃ والا نسخہ بھی ثابت ہے اور اس سے بیس رکعات تراویح پر استدلال بھی درست ہے ۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو عشرین رکعۃ والا نسخہ ہی راجح معلوم ہوتا ہے کیونکہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی باقی روایات میں بھی یہی عشرین رکعۃ کے الفاظ آئے ہیں مثلا عبد العزیز بن رفیع کا اثر جو ابھی گذرا ہے اس میں بھی یہی الفاظ ہیں : یصلی بالناس فی رمضان بالمدینۃ عشرین رکعۃ ۔ کنز العمال 8/409 کی روایت میں ہے : فصلی بھم عشرین رکعۃ ، اسی طرح روایت نمبر 1 جو یحییٰ بن سعید سے مروی ہے اس میں بھی یہ الفاظ ہیں : ان عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ امر رجل ( ای ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ) فلما جمعھم عمر علیٰ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کان یصلی بھم عشرین رکعۃ ۔ ( مجموعۃ الفتاویٰ 11/520 )
حافظ ابن قدامہ حنبلی ؒ لکھتے ہیں : ولنا ان عمر رضی اللہ عنہ جمع الناس علیٰ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کان یصلی لھم عشرین رکعۃ ۔۔ ( المغنی 1/799 )
معلوم ہوا کہ عشرین رکعۃ والا نسخہ ہی راجح ہے اور غیر مقلدین کا ابوداؤد کے اس نسخہ کو محرّف کہنا باطل ہے ۔

روایت نمبر 5 :
امام بیہقی ؒ فرماتے ہیں : اخبرنا ابو طاہر الفقیہ قال اخبرنا ابو عثمان البصری حدثنا ابو احمد بن عبد الوہاب قال اخبرنا خالد ابن مخلد قال حدثنا محمد بن جعفر قال حدثنی یزید بن خصیفۃ عن السائب بن یزید قال کنا نقوم فی زمان عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بعشرین رکعۃ والوتر ۔( معرفۃ السنن والآثار 4/42 )
ترجمہ : حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : ہم ( نبی ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم ) حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں بیس رکعات اور ( تین ) وتر کے ساتھ قیام کرتے تھے ۔ اس روایت کی سند کو امام سبکی ؒ نے شرح منہاج میں اور ملا علی قاری ؒ نے شرح مؤطا میں صحیح قرار دیا ہے ۔ ( تحفۃ الاحوذی 2/75 )
اسی طرح امام عراقی ؒ نے بھی اس کی سند کو صحیح کہتے ہیں ۔ (طرح التثریب 3/88 )
اس روایت پر غیر مقلدین نے دو طرح سے کلام کیا ہے ۔
اولا : 
ابو طاہر فقیہ کی کسی نے توثیق نہیں کی ۔
ثانیا : 
اس روایت میں ابو عثمان بصری مجہول ہے ۔ چنانچہ مولانا عبدالرحمان مبارکپوری صاحب لکھتے ہیں : اس روایت میں ایک راوی ابو طاہر ہے جن کی نسبت ہم کو علم نہیں کہ کسی نے ان کو ثقہ قرار دیا ہو ۔ دوسرے ابو عثمان ہیں جن کا تذکرہ ہم کو کسی کتاب میں نہیں ملا لہذا یہ روایت ضعیف ہے ۔ ( تحفۃ الاحوذی 2/75 )
لیکن غیر مقلدین کے اس اعتراض کی دونوں شقیں باطل ہیں ۔ اول اس لئے کہ ائمہ رجال نے ابو طاہر محمد بن محمش کی باقاعدہ توثیق کی ہے ۔ چنانچہ حافظ ذہبی ؒ اور حافظ ابن العماد ؒ ان کے بارے میں لکھتے ہیں : الفقیہ الشافعی عالم نیسابور ومسندھا ۔۔۔۔ وکان قانعا متعفا ۔۔۔۔ ورویٰ عنہ الحاکم مع تقدیمہ واثنیٰ علیہ ۔ ( العنبر 2/218 شذرات الذھب 3/192 )
یہ نیشا پور کے عالم اور مسند تھے اور دنیا سے قناعت کرنے والے اور پاک دامن شافعی المسلک فقیہ تھے ۔ امام حاکم نے ان سے باوجود متقدم ہونے کے روایت بھی کی ہے اور ان کی تعریف بھی کی ہے ۔ نیز امام ذہبی ؒ اس کے بارے میں ارقام فرماتے ہیں ۔ مسند نیسا بور العلامۃ ابو طاہر محمد بن محمش الزیادی ۔ ( تذکرۃ الحفاظ 3/169 )
امام سبکی ؒ فرماتے ہیں : الفقیہ شیخ ابو طاہر زیادی امام المحدثین والفقہاء نیسابور فی زمانہ وکان شیخا ادیبا ، عارفا بالعربیۃ سلمت الیہ الفقہاء بمدینۃ نیسابور والمشیحۃ ۔ ( طبقات الکبریٰ 3/83 بحوالہ رکعات التراویح ص 48 )
یعنی فقیہ شیخ ابو طاہر زیادی اپنے زمانہ کے نیساپور شہر کے تمام محدثین اور فقہاء کے امام تھے اور وہ شیخ ، ادیب اور عربی زبان کے عالم تھے ، نیساپور شہر کے تمام فقہاء نے فتویٰ نویسی اور بزرگی ان کو سونپ دی تھی ۔ امام سبکی علامہ عبد الغافر سے ان کے بارے میں نقل کرتے ہیں ۔ امام اصحاب الحدیث بخر اسان وفقیھم بالاتفاق بلا مدافعۃ ۔ ( ایضا )
یعنی وہ پورے خراسان کے بالاتفاق اور بلا اختلاف امام اصحاب الحدیث اور ان کے فقیہ تھے ۔ اب جبکہ امام حاکم ؒ ، امام ذہبی ؒ اور ابن العماد نے ابو طاہر کی توثیق کی ہے ۔ اسی طرح امام سبکی اور علامہ عبد الغافر نے ابو طاہر کو شیخ اور امام کے القاب سے ملقب فرمایا ہے اور لفظ شیخ اور لفظ امام بھی الفاظ توثیق میں سے ہیں ۔ چنانچہ امام سیوطی ؒ اور حافظ ابن حجر ؒ نے لفظ شیخ کو کلمات توثیق میں شمار کیا ہے ۔ ( تدریب الراوی 1/213 شرح نخبۃ الفکر ص 134 )
اسی طرح امیر صنعانی نے بھی قصب السکر میں لفظ شیخ کو الفاظ تعدیل میں شمار کیا ہے۔ ( قصب السکر فی نظم نخبۃ الفکر ص 158 مع شرح نخبۃ الفکر )
مولانا ارشاد الحق اثری غیر مقلد لکھتے ہیں : شیخ کا لفظ الفاظ تعدیل میں شمار ہوتا ہے ۔ ( توضیح الکلام 1/480 )
اسی طرح زین الدین عراقی ؒ مولانا عبد الرحمان مبارکپوری غیر مقلد اور مولانا سلطان محمود صاحب غیر مقلد نے بھی لفظ شیخ کو الفاظ تعدیل میں شمار کیا ہے ۔ ( دیکھئے الفقیہ الحدیث مع التعلیقات الاثریہ ص 46 ابکار المنن ص 140 اصطلاحات المحدثین ص 21 )
اسی طرح لفظ امام بھی الفاظ توثیق میں ہے چنانچہ علامہ سخاوی ؒ اور علامہ سندھی نے اس کا کلمات توثیق میں شمار کیا ہے ۔ ( الرفع والتکمیل ص 13 )
اعتراض : 
مولانا نزیر احمد رحمانی صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں : حافظ سخاوی ؒ نے جو کچھ لکھا ہے اس کا منشاء یہ ہے کہ جب کسی عادل کے حق میں یہ الفاظ ( امام اور حافظ ) استعمال کئے جائیں گے تو اس وقت ان کا شمار الفاظ توثیق میں ہوگا ۔ ( انوار المصابیح ص 223 ) 
الجواب : 
اگر رحمانی صاحب کی یہ بات بالکلیہ تسلیم بھی کرلی جائے تو پھر بھی ابو طاہر فقیہ کے حق میں یہ کوئی مضر نہیں کیونکہ جب امام سبکی ؒ اور ملا علی قاری ؒ نے اس حدیث کو صحیح کہہ کر اس کی توثیق کردی ہے اور امام سبکی اور امام عبد الغافر ؒ نے اس کے بارے میں شیخ کہا ہے جو بالاتفاق الفاظ توثیق میں سے ہے تو اس سے ابو طاہر کا ثقہ اور عادل ہونا ثابت ہوگیا ۔ لہذا جب اس کے حق میں لفظ امام استعمال کیا گیا تو چونکہ یہ لفظ ایک عادل کے حق میں استعمال کیا گیا ہے تو گویا رحمانی صاحب کے بیان کردہ قاعدہ کے موافق بھی ابو طاہر کے حق میں لفظ الفاظ توثیق میں سے ہے 
حافظ زبیر علی زئی غیر مقلد نے بھی لفظ امام کو کلمات توثیق میں شمار کیا ہے ۔ ۔ ( دیکھئے الکواکب الدریہ ص 65 ) 
اب جبکہ امام حاکم ، امام سبکی ، امام عبد الغافر ، امام ذہبی ؒ ، علامہ ابن العماد نے باقاعدہ ابو طاہر کو ثقہ قرار دیا ہے تو پھر یہ مجہول کیسے ہے ؟؟؟ اور خود غیر مقلدین کے مشہور غیر مقلد عالم مولانا عبد الجلیل شہسوانی بھی ابو طاہر کو ثقہ کہتے ہیں ۔ چنانچہ فرماتے ہیں ۔ ابو طاہر فقیہ محمد بن محمش مشہور ثقات سے ہیں ۔( فتاوی اہلحدیث 1/511 )
نیز اس کی مذکورہ روایت کو امام سبکی ؒ اور ملا علی قاری ؒ نے صحیح قرار دیا ہے اور مولانا عبد المنان نور پوری صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں کہ : جب کسی حدیث کو صحیح کہا جاتا ہے تو اس کے ضمن میں اس کے راویوں کی توثیق بھی آجاتی ہے ، ( تعداد تراویح ص 46 )
حافظ زبیر علی زئی صاحب غیر مقلد ایک راوی ( محمد بن یحییٰ الصفار جس کو کسی امام نے بھی ثقہ نہیں کہا ) کے بارے میں لکھتے ہیں ۔ بیہقی نے اس کی حدیث کی تصحیح کرکے اس کی توثیق کی ہے ۔ ( دیکھئے الکواکب الدریہ ص 45 )
نیز موصوف ایسے ہی ایک اور راوی کی روایت کے متعلق لکھتے ہیں : الحاکم و الذہبی کا اس کی حدیث کو صحیح کہنا اس کی توثیق ہے ۔ ( دیکھئے الکواکب الدریہ ص 45 )
مولانا محمد گوندلوی غیر مقلد ایک راوی کے متعلق لکھتے ہیں : دارقطنی نے اس اثر کو صحیح کہا ہے ۔ ان ہاں یہ راوی مجہول نہیں ۔ ( خیر الکلام ص 221 )
بنا بریں جب امام سبکی ؒ اور ملا علی قاری ؒ نے ابو طاہر فقیہ کی حدیث مذکورہ کو صحیح کہہ کر اس کی توثیق کی ہے اور امام حاکم ؒ وغیرہ حضرات نے صراحتا اس کی توثیق کردی تو پھر غیر مقلدین کیسے اس کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ مجہول ہے اور اس کی کسی نے توثیق نہیں کی ، بلکہ امام سبکی اور امام عبد الغافر نے تو اس کے بارے میں یہاں تک فرمایا ہے کہ نیشاپور شہر کے تمام محدثین اور فقہاء نے ابو طاہر کو اپنا امام اور مقتداء تسلیم کیا ہے ۔ اور ذہبی اور علامہ ابن العماد نے اس کو مسند نیشاپور کہا ہے ۔ اب جس شخص کو نیشاپور جیسے شہر ( جو اپنے وقت میں بڑے بڑے محدثین اور فقہاء کا مسکن رہا ہے ) کے محدثین اور فقہاء بلا اختلاف اپنا رہنما تسلیم کرتے ہیں تو ایسے شخص کی ثقاہت اور عدالت میں کیا شک ہوسکتا ہے ؟؟؟ کیونکہ یہ بات ناممکن ہے کہ یہ تمام محدثین اور فقہاء ایک غیر ثقہ اور غیر معروف العدالۃ شخص کو اپنا امام تسلیم کریں ۔ لہذا اگر انہوں نے ابو طاہر فقیہ کو اپنا امام مانا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ تمام شہر کے محدثین اور فقہاء کے حلقہ میں ابو طاہر کی عدالت اور ثقاہت مشہور و معروف تھی اور ایسا شخص جس کی عدالت اہل علم کے ہاں مشہور و معروف ہو تو اس کی عدالت کے متعلق سوال ہی نہیں ہوسکتا ۔ چنانچہ امام نووی ؒ فرماتے ہیں : فمن اشتھرت عدالتہ بین اھل العلم و شاع الثناء علیہ کفی فیھا ۔ ( تقریب مع تدریب الراوی 1/255 )
جس شخص کی عدالت اہل علم میں مشہور و معروف ہو اور اس کی تعریف عام ہو تو یہ اس کی عدالت کیلئے کافی ہے ۔
بنابریں اگر ابو طاہر فقیہ کی محدثین ( امام سبکی ، امام عبد الغافر ، ملا علی قاری ؒ وغیرہ ) نے توثیق نہ بھی کی ہوتی تو ان محدثین اور فقہاء کا اس کو اپنا امام اور رہنما تسلیم کرنا ہی اس کی عدالت اور ثقاہت کیلئے کافی تھا لیکن جب ان محدثین نے اس کی باقاعدہ توثیق بھی کردی تو پھر اس کے عادل اور ثقہ ہونے میں کوئی شک و شبہ ہی نہیں رہا ۔
اسی طرح غیر مقلدین کے اعتراض کی دوسری شق بھی باطل ہے کہ اس روایت کے دوسرے راوی ابو عثمان بصری مجہول ہیں : اولا ائمہ حدیث اور ائمہ رجال میں سے کسی امام نے ابو عثمان کو مجہول نہیں قرار دیا بلکہ ائمہ حدیث امام سبکی ؒ ، ملا علی قاری ؒ اور امام عراقی ؒ وغیرہ نے اس کی حدیث کو صحیح کہہ کر اس کی توثیق کی ہے ( جیسا کہ غیر مقلدین حضرات کے حوالے سے گزرچکا ہے ) ۔ اگر ابو عثمان بصری مجہول ہوتے تو پھر یہ بڑے بڑے محدثین اس کی روایت کو کیسے صحیح کہہ سکتے تھے ۔ کیوں کہ کسی روایت کے صحیح ہونے کیلئے شرط ہے کہ اس کی سند میں کوئی مجہول راوی نہ ہو ۔ چنانچہ مشہور غیر مقلد محدث مولانا محمد گوندلوی صاحب لکھتے ہیں : جس روایت میں مجہول راوی ہو وہ ضعیف ہوتی ہے ۔ ( خیر الکلام ص 406 )
ثانیا :
ابو عثمان ( عمرو بن عبد اللہ ) البصری سے ابو طاہر فقیہ اور حسن ابن علی بن موئل وغیرہ نے روایت کی ہے اور اس مذکورہ روایت کے علاوہ اور بھی کئی روایات السنن الکبریٰ للبیہقی میں ان سے مروی ہیں ۔ ( التعلیق الحسن ص 251 )
اور کسی محدث نے ان کی تضعیف نہیں کی بلکہ امام سبکی ؒ ، ملا علی قاری ؒ اور امام عراقی ؒ وغیرہ نے اس کی حدیث کی تصحیح کرکے اس کی توثیق کی ہے اور اصول حدیث کا متفقہ اصول ہے کہ جس شخص سے دو راوی روایت کردیں تو اس کی جہالت ختم ہوجاتی ہے اور وہ مجہول نہیں رہتا کیونکہ مجہول عند المحدثین اس کو کہتے ہیں جس سے صرف ایک راوی روایت کرے اور اس کی توثیق بھی نہ کی گئی ہو چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ لکھتے ہیں : من یرو عنہ غیر واحد ولم یوثق و الیہ الاشارۃ بلفظ مجہول ۔ ( مقدمہ تقریب التہذیب ص 3 )
جس شخص سے سوائے ایک راوی کے دوسرا کوئی راوی روایت نہ کرے اور کسی نے اس کی توثیق بھی نہ کی ہو تو اس کی طرف لفظ مجہول سے اشارہ کیا جاتا ہے ۔ مولانا شمس الحق عظیم آبادی غیر مقلد علامہ ابن حزم کے دار قطنی کے ایک راوی کو مجہول کہنے پر گرفت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : وھو جرح مردود فقد روی عنہ ثلاثہ ۔ ( التعلیق المغنی 3/9 )
حافظ زبیر علی زئی غیر مقلد لکھتے ہیں : محمد بن یحییٰ الصفار سے دو ثقہ روایت کر رہے ہیں ۔
نمبر 1 : محمد بن سلیمان بن فارس ۔ نمبر 2 : محمد بن عبد السلام ۔ لہذا وہ مجہول نہیں ہے ۔ ( الکواکب الدریہ ص 45 )
مولانا ابو محمد عبد الستار الحماد غیر مقلد لکھتے ہیں : اور محدثین کا اصول ہے کہ جس آدمی سے کم از کم دو راوی روایت کرنے والے ہوں اس کی جہالت ختم ہوجاتی ہے ۔ ( ہفت روزہ الاعتصام 16 ستمبر 1994 ص 19 ) 
نیز لکھتے ہیں : علمائے جرح و تعدیل نے یہاں تک لکھا ہے کہ اگر کوئی ایسا راوی ہے جسے کسی نے بھی ثقہ نہ کہا ہو اور نہ کسی سے اس کے متعلق جرح ہی منقول ہو ، اگر اس سے روایت لینے والے کئی ایک ثقہ راوی ہوں اور اس سے کوئی منکر حدیث بیان نہ کریں تو اس کی مرویات کو قبولیت کی سند حاصل ہوگی ۔ ( ایضا )
حماد صاحب مزید لکھتے ہیں : بلکہ حافظ مناوی مجہول العدالۃ کی روایت کی توجیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : کہ اخبار و احادیث کی بنیاد راوی کے ساتھ حسن ظن پر ہے اور کسی شخص سے اگر کئی ایک ثقہ راوی روایات نقل کرتے ہوں تو اس سے حسن ظن کو تقویت پہنچتی ہے ہیشم بن عمر ان کی مذکورہ روایت کو ہمارے شیخ ( البانی غیر مقلد ) نے اور ہم نے انہی دلائل کی وجہ سے اسنادہ حسن کہا ہے ۔ ( ایضا )
قارئین : غیر مقلدین کے ان اقتباسات کو سامنے رکھتے ہوئے اندازہ لگائیں کہ جس راوی کی کسی محدث نے ادنیٰ توثیق بھی نہ کی ہو ، صرف اس سے نقل کرنے والے دو راوی ہوں تو اس کی روایت تو غیر مقلدین کے ہاں حسن ہے اور اس کو سند قبولیت حاصل ہے لیکن جس راوی ( ابو عثمان بصری ) کی روایت کو محدثین نے صحیح کہہ کر اس کی توثیق بیان کی ہے اور اس سے کم از کم دو راوی روایت کرنے والے بھی ہیں تو پھر بھی وہ راوی غیر مقلدین کی نظروں میں مجہول ہے ۔ والی اللہ المشتکیٰ ۔
غیر کی آنکھ کا تنکا تجھ کو آتا ہے نظر 
دیکھ اپنی آنکھ کا غافل ذرا شہتیر بھی
باقی رہا مولانا مبارکپوری صاحب کا یہ کہنا کہ ابو عثمان کا تذکرہ ہمیں کسی کتاب میں نہیں ملا تو جوابا عرض ہے کہ مبارکپوری صاحب کے عدم علم سے ابو عثمان کا مجہول ہونا لازم نہیں آتا کیوں کہ خود مبارکپوری صاحب کے ہی ہم مسلک محدث حافظ گوندلوی ایک راوی کے متعلق فرماتے ہیں : مگر عدم علم سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ مجہول ہو ۔ ( خیر الکلام ص 248 )
الغرض غیر مقلدین کے اعتراض کی دونوں شقیں باطل ہیں اور اس روایت کے پہلے دونوں راوی قطعا مجہول نہیں ہیں ۔اسی طرح روایت کے باقی راوی بھی سب ثقہ ہیں ۔ چنانچہ تیسرے راوی ابو احمد بن عبد الوہاب فراء ہیں ، امام نسائی فرماتے ہیں یہ ثقہ ہیں ، امام مسلم بن حجاج فرماتے ہیں یہ ثقہ اور صدوق ہیں ، امام ابن حبان نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے ۔ ( تہذیب التہذیب 9/319 )
حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ ان کے بارے میں لکھتے ہیں : ثقہ عارف ۔ ( تقریب 2/108 )
چوتھے راوی خالد بن مخلد القطوانی الکوفی ہیں ، امام یحییٰ بن معین ان کے بارے میں فرماتے ہیں ۔ مابہ باس ۔ امام ابن عدی ؒ فرماتے ہیں : ھو من المکثرین وھو عندی انشاء اللہ لاباس بہ ۔ یعنی یہ کثیر الحدیث ہیں اور میرے نزدیک انشاء اللہ ان کی روایت میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ امام ابن حبان ؒ اور امام ابن شاہین ؒ نے ان کو ثقہ راویوں میں شمار کیا ہے ۔ امام عجلی فرماتے ہیں اور ان میں تھوڑا سا تشیع ہے ۔
عثمان بن ابی شیبہ فرماتے ہیں کہ یہ ثقہ اور صدوق ہیں ۔ نیز یہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم وغیرہ کے راوی ہیں ۔ ( دیکھئے تہذیب التہذیب 3/116 )
پانچویں راوی محمد بن جعفر بن ابی کثیر الانصاری ہیں امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ یہ ثقہ ہیں ، امام ابن المدینی فرماتے ہیں : یہ معروف محدث ہیں ، امام نسائی فرماتے ہیں کہ یہ صالح اور مستقیم الحدیث ہیں ، امام عجلی ؒ فرماتے ہیں کہ یہ ثقہ ہیں اور امام ابن حبان ؒ نے بھی ان کو ثقات میں شمار کیا ہے اور یہ صحاح ستہ کے راوی ہیں ۔ ( دیکھئے تہذیب 9/94 )
چھٹے اور ساتویں یزید بن حصیفہ اور سائب بن یزید رضی اللہ کا تذکرہ روایت نمبر 7 میں آئے گا ۔ الغرض یہ روایت بالکل صحیح ہے ۔

روایت نمبر 6 :
عبد الرزاق عن السلمی عن الحارث بن عبد الرحمان ابن ابی ذباب عن السائب بن یزید قال کنا ننصرف من القیام علیٰ عھد عمر رضی اللہ عنہ وقد دنا فروغ الفجر وکان القیام علیٰ عھد عمر رضی اللہ عنہ ثلاثۃ و عشرین رکعۃ ۔ ( مصنف عبد الرزاق 4/261 )
ترجمہ :
حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں قیام ( تراویح ) سے اس وقت فارغ ہوکر لوٹتے تھے جب طلوع فجر قریب ہوتا اور حضرت عمر ضی اللہ عنہ کے دور میں قیام ( تراویح ) کی تعداد تئیس رکعات تھی ۔ 
علامہ ابن عبد البر ؒ فرماتے ہیں : ھذا محمول علیٰ ان الثلاث للوتر ۔ ( عمدۃ القاری 8/246 ) یہ تئیس رکعات اس پر محمول ہے کہ ان میں تین رکعتیں وتر کی تھیں ۔
اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے ۔ اب اس روایت کے ہر ہر راوی کے حالات ملاحظہ ہوں ۔ 
1 ۔ امام عبد الرزاق الحمیری ؒ مشہور مصنف اور بالاتفاق ثقہ امام ہیں ، امام احمد بن حنبل ؒ سے پوچھا گیا کہ آپ نے حدیث میں عبد الرزاق سے بہتر کسی کو دیکھا ہے تو انہوں نے فرمایا کسی کو نہیں ، امام ابو زرعہ فرماتے ہیں کہ عبد الرزاق ان محدثین میں سے ہیں جن کی حدیث درست ہوتی ہے ، امام ابو حاتم فرماتے ہیں ان کی حدیث لکھی جاتی ہے اور اس سے احتجاج کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح ابوداؤد ، فریابی ، امام ذہلی ، امام یعقوب بن شیبہ اور امام ابن حبان وغیرہ نے بھی ان کی توثیق کی ہے ۔ ( تہذیب الکمال 11/ 450 تا 452 تہذیب التہذیب 6/280 تا 281 )
حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں کہ عبد الرزاق حفاظ اور اثبات میں سے اور صاحب تصانیف بزرگ ہیں اور تمام ائمہ نے آپ کی توثیق کی ہے سوائے عباس بن عظیم عنبری کے ، کہ انہوں نے ان کے بارے میں ایسی بات کہی جس میں انہوں نے حد سے تجاوز کیا ہے اور ائمہ رجال میں سے کسی امام نے اس میں ان کی موافقت نہیں کی ۔ ( ھدی الساری مقدمہ فتح الباری ص 589 )
امام عبد الرزاق آخری عمر میں نابینا ہوگئے تھے اور ان کے حافظہ میں تغیر آگیا تھا لہذا جن لوگوں ان سے آخر عمر میں سماعت کی تھی انہوں نے ان سے کچھ منکر حدیثیں بھی نقل کی ہیں ۔ ان لوگوں میں سے ایک اسحاق بن ابرہیم دبری بھی ہیں جنہوں نے ان سے حالت اختلاط میں سنا تھا اور یہی اسحاق دبری مصنف عبد الرزاق کے بنیادی راوی ہیں ۔ اب بعض غیر مقلدین مصنف کی جملہ روایات کو یہ کہہ کر رد کر دیتے ہیں کہ چونکہ مصنف کا بنیادی راوی اسحاق دبری کا امام عبد الرزاق سے سماع بعد الاختلاط کا ہے لہذا اس کی جملہ روایات منکر ہیں لیکن غیر مقلدین حضرات کا یہ اشکال غلط ہے کیوں کہ امام عبد الرزاق نے اپنی یہ کتاب نابینا ہونے سے پہلے حالت صحت میں لکھی تھی اور اصول حدیث کی وجہ سے محدث جب زمانہ اختلاط میں جو روایات زبانی کرے وہ تو منکر شمار کی جاتی ہیں لیکن اس دوران جو روایات وہ اپنی کتاب سے بیان کرے جس کو اس نے حالت صحت میں تصنیف کیا تھا ان روایات پر اس کے اختلاط کا کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ یہ بات خود اکابرین غیر مقلدین کو بھی تسلیم ہے ۔ چنانچہ حافظ عبد المنان نور پوری غیر مقلد لکھتے ہیں : مختلط سے اختلاط کے بعد آدمی سماع کے درمیان اور اختلاط کے بعد اس سے اس کی وہ تصنیف کردہ کتاب روایت کرنے کے درمیان جو اس نے اختلاط سے پہلے تصنیف کی فرق ہے ۔ ( تعداد تراویح ص 119 )
لہذا امام عبد الرزاق سے دبری نے جو روایات زبانی سنی تھیں ان میں تو کلام کرنے کی گنجائش ہے لیکن اس نے جو روایات ان سے ان کی تصنیف کردہ کتاب سے سنی تھیں ان کی صحت میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوسکتا ۔ چنانچہ حافظ ابن الصلاح ؒ اور حافظ ابن حجر ؒ اسحاق دبری کے ترجمہ میں فرماتے ہیں : وانما الکلام فی الاحادیث التی عندہ فی غیر التصانیف ، فھی التی فیھا المناکیر وذالک لاجل سماعہ منہ فی حالۃ الاختلاط ۔ ( لسان المیزان 1/461 مقدمہ ابن الصلاح )
اسحاق دبری کی عبد الرزاق سے ان روایات میں کلام ہے جو اس کے پاس تصانیف کے علاوہ ہیں کیونکہ ان میں منکر روایات بھی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دبری نے عبد الرزاق سے حالت اختلاط مین سماعت کی تھی ۔
امام احمد بن حنبل ؒ فرماتے ہیں : من سمع منہ بعد ما عمی فلیس بشئی وماکان فی کتبہ فھو صحیح وماکان لیس فی کتبہ فانہ کان یلقن فیلتقن ۔ ( ھدی الساری ص 589 )
جس نے امام عبد الرزاق سے نابینا ہونے کے بعد سماعت کی ہے وہ کوئی شئی نہیں ہے اور جو اس کی کتابوں میں ہے وہ صحیح ہے اور جو اس کی کتابوں میں نہیں تو اس میں تلقین کی جاتی تھی تو وہ تلقین قبول کرلیتا تھا ۔
مصنف عبد الرزاق سے متعلق مزید تفصیل انشاء اللہ آگے آئے گی ۔
2 ۔ محمد بن فلیج السلمی : یہ امام عبد الرزاق کے استاد اور صحیح بخاری کے راوی ہیں ۔ امام دار قطنی ان کو ثقہ کہتے ہیں ، امام بخاری فرماتے ہیں کہ بعض ائمہ نے ان کی توثیق کی ہے اور یہ اپنے باپ ( فلیج ) سے زیادہ ثقہ ہیں ، امام ابن حبان نے ان کو ثقات مین شمار کیا ہے ، امام ابو حاتم ؒ فرماتے ہیں ، مابہ باس ( ان کی روایت میں کوئی حرج نہیں ہے ) نیز فرماتے ہیں ، لیس بذاک القوی ۔ مولانا ارشاد الحق اثری غیر مقلد لکھتے ہیں ، لیس بذاک القوی ، جس کے مفہوم میں صرف درجہ کاملہ کی نفی مراد ہے ۔ لہذا یہ جرح لیس بہ باس کے معارض نہیں ۔ ( توضیح الکلام 1/473 )
امام نسائی فرماتے ہیں کہ محمد بن فلیج ثقہ ہیں اور میں نے ان سے حدیث لکھی ہے ۔ ( دیکھئے تہذیب الکمال 17/159 تہذیب التہذیب 9/360 میزان الاعتدال )
3 ۔ حارث بن عبد الرحمان بن ابی ذباب ؒ :
امام ابو زرعہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں : لیس بہ باس ، امام مقبری فرماتے ہیں کہ یہ ثقہ ہیں ، امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ یہ مشہور ( محدث ) ہیں ، امام ابن حبان ؒ اور امام ابن قانع ؒ نے ان کو ثقہ راویوں میں شمار کیا ہے ۔ نیز امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ یہ متقنین میں سے ہیں ، امام مسلم نے ان سے اپنی صحیح میں ، امام بخاری نے خلق افعال العباد میں اور دیگر ائمہ نے اپنی اپنی کتب حدیث میں ان سے روایات نقل کی ہیں ۔ (دیکھئے تہذیب الکمال 4/45 تہذیب التہذیب 2/168 میزان الاعتدال1/438 )
4 ۔ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ صحابی رسول ہیں ۔
الغرض یہ روایت بالکل صحیح ہے اور اس کا ہر ہر راوی بالکل ثقہ ہے 

DIFAEAHNAF دفاع احناف

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں