بیس رکعات تراویح عہد فاروقی و عہد عثمانی میں
اب تک ہم نے عہد فاروقی کے دور میں بیس رکعات تراویح کے ثبوت پر دلائل پیش کئے اب ہم بیس رکعات تراویح عہد فاروقی و عہد عثمانی پر دلائل پیش کرتے ہیں
روایت نمبر 7 :
امام بیہقی ؒ فرماتے ہیں : وقد اخبرنا ابو عبد اللہ الحسین ابن محمد بن الحسین ابن فنجویہ الدینوری بالدامغان ثنا احمد بن محمد بن اسحاق السنی ثنا عبد اللہ بن محمد بن عبد العزیز البغوی ثنا علی بن الجعد انبانا ابن ابی ذئب عب یزید بن خصیفہ عن السائب بن یزید رضی اللہ عنہ قال کانوا یقومون علی عھد عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فی شھر رمضان بعشرین رکعۃ قال وکانوا یقرؤن بالمئین وکانوا یتوکؤن علی عصیھم فی عھد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ من شدۃ القیام ۔ ( السنن الکبریٰ للبیہقی 2/496 )
ترجمہ :
حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بیس رکعات ( تراویح ) کے ساتھ قیام کرتے تھے اور ( قراء حضرات ) سو سو آیات والی سورتیں پڑھتے تھے اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں لوگ شدت قیام کی وجہ سے لاٹھیوں پڑ ٹیک لگاتے تھے ۔
چونکہ اس روایت کا آخری جملہ لوگ یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شدت قیام کی وجہ سے لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے تھے بیس رکعات کے ضمن میں مروی ہے تو اس سے ظاہر یہی ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت کی طرح بیس رکعات تراویح ہی پڑھی جاتی تھیں کیونکہ جب راوی حضرت سائب ؒ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی بیس رکعات کے پڑھے جانے کا ذکر کیا تو اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں بیس کے علاوہ کسی اور عدد پر عمل ہوتا تو راوی ضرور اس کو بھی ذکر فرماتے ۔ پس راوی کا اس موقعہ پر سکوت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بھی عہد فاروقی کی طرح بیس رکعات تراویح ہی پڑھی جاتی تھیں ۔ کیونکہ سکوت فی محل البیان بیان ہی ہوتا ہے ۔
نیز حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بھی بیس رکعات تراویح پر عمل درآمد ہونا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ عہد عثمانی میں بھی بیس رکعات تراویح پر ہی عمل رہا ۔
اس مذکورہ روایت کو متعدد محدثین مثلا ۔ امام نووی ؒ ، امام سیوطی ؒ ، امام ابن العراقی ؒ ، اور علامہ نیموی ؒ وغیرہ نے صحیح قرار دیا ہے ۔ ( دیکھئے آثار السنن مع التعلیق الحسن ص 251 )
مولوی ایوب صابر صاحب غیر مقلد اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ : اس حدیث کی سند بلا غبار صحیح ہے ۔ ( تحقیق تراویح ص 51 )
اب اس روایت کے ہر ہر راوی کا تذکرہ اور توثیق کتب اسماء الرجال سے ملاحظہ ہو ۔
1 ۔ صاحب سنن امام احمد بن حسین البیہقی
صاحب سنن امام احمد بن حسین البیہقی ؒ مشہور محدث اور جلیل القدر امام ہیں علامہ ذہبی ؒ ان کے متعلق لکھتے ہیں : الامام ، الحافظ ، العلامہ ، شیخ الخراسان ۔ ( تذکرۃ الحفاظ 3/309 )
2 ۔ ابو عبد اللہ حسین ابن فنجویہ الدینوری :
حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ حسن بن محمود کے ترجمہ میں لکھتے ہیں : وشیخہ ھو الحسن بن عبد اللہ بن فنجویہ ، حافظ کبیر مصنف نیز فرماتے ہیں کہ یہ معروف راوی ہیں ۔ ( دیکھئے لسان المیزان 2/295۔296 طبع بیروت )
اسی طرح حافظ موصوف محمد بن علی المعتصم الھاشمی کے ترجمہ میں بھی ابن فنجویہ کو ثقہ راویوں میں شمار کیا ہے ۔ ( ایضا 5/301 )
امام ذہبی ؒ ان کے بارے میں فرماتے ہیں ، الامام المحدث ، بقیۃ المشائخ امام شیرویہ اپنی تاریخ میں ابن فنجویہ کے بارے میں لکھتے ہیں : کان ثقہ صدوقا ، کثیر التصانیف ۔ ( سیر اعلاء النبلاء 17/383۔384 )
علامہ ابن العماد فرماتے ہیں : ابن فنجویہ ثقہ مصنفا ۔ ( شذرات الذھب 3/200 )
علامہ نیموی لکھتے ہیں ۔ فھو من کبار المحدثین لا یسئل عن مثلہ ۔ ( التعلیق الحسن ص 251 )
اس سے مولانا عبد الرحمان مبارکپوری صاحب غیر مقلد کا یہ مطالبہ پورا ہوگیا کہ ۔ فمن یدعی صحۃ ھذا الاثر ان یثبت کونہ ثقہ قابلا للاحتجاج ۔ ( تحفۃ الاحوذی 2/75 ) یعنی جو شخص اس اثر کی صحت کا مدعی ہو اس پر لازم ہے کہ وہ ابن فنجویہ کا ثقہ اور قابل احتجاج ہونا ثابت کرے ۔
3 ۔ احمد بن محمد بن اسحاق السنی :
یہ مشہور کتاب عمل الیوم واللیلہ کے مصنف اور سنن نسائی کے راوی و مرتب ہیں ۔ حافظ ذہبی ؒ طبقات الحفاظ میں ان کے بارے میں فرماتے ہیں ۔ کان دینا خیر اصدوقا اختر السنن و سماہ المجتبی ۔ ( التعلیق الحسن للنیموی ؒ ص251 )
نیز حافظ ذہبی ؒ تذکرۃ الحفاظ میں ان کے بارے میں لکھتے ہیں : الحافظ ، الامام ، الثقۃ ۔ ( تذکرہ 3/939 )
حافظ تاج الدین سبکی ؒ فرماتے ہیں : کان رجلا صالحا فقیھا ۔ ( طبقات الکبریٰ 3/39 )
4 ۔ عبد اللہ بن محمد البغوی ؒ :
علامہ خطیب بغدادی ان کے بارے میں لکھتے ہیں : کان ثقۃ ، ثبتا ، مکثرا ، فھما ، عارفا ،
امام دار قطنی ؒ فرماتے ہیں : ثقۃ ، جبل ، امام من ائمۃ الحدیث ۔ (التعلیق الحسن للنیموی ؒ ص251 )
امام ذہبی ؒ ان کو الحافظ ، الامام الحجۃ کے القاب سے یاد فرماتے ہیں ۔ ( سیر اعلاء النبلاء 14/440 )
5۔ علی بن الجعد :
یہ امام بخاری ؒ کے استاد ہیں ، اور امام بخاری ؒ نے تیرہ حدیثیں ان سے اپنی صحیح میں روایت فرمائی ہیں ، نیز یہ نہایت ثقہ راوی ہیں ۔ چنانچہ امام صالح ؒ ان کو ثقہ بتلاتے ہیں ، امام نسائیؒ ان کو صدوق کہتے ہیں ، امام ابو زرعہؒ فرماتے ہیں : کان صدوقا فی الحدیث ۔ امام ابو حاتم ؒ فرماتے ہیں : کان متقنا صدوقا ۔ نیز فرماتے ہیں کہ محدثین میں سے میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو علی بن الجعد کی طرح احادیث یاد رکھنے والا ہو ۔ امام ابن قانع فرماتے ہیں : ثقہ ثبت ۔ امام محمد بن صالح اور امام مطین بھی ان کو ثقہ کہتے ہیں ، امام فن رجال حضرت یحییٰ بن معین ان کو ثقہ صدوق ، ثقہ صدوق دو دفعہ کہہ کر ان کی ڈبل توثیق کرتے ہیں ۔ نیز فرماتے ہیں کہ علی بن الجعد ربانی العلم ہیں ۔ ( دیکھئے تھذیب الکمال 13/216۔217 تھذیب التھذیب 7/258 )
حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ ان کے بارے میں لکھتے ہیں : ثقۃ ، ثبت رمی بالتشیع ۔ ( تقریب التھذیب 1/689)
6 ۔ محمد بن عبد الرحمٰن بن ابی ذئب :
یہ ثقہ ، صدوق اور صحاح ستہ کے راوی ہیں ۔ امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ یہ سعید بن المسیب ؒ کے مشابہ تھے ۔ امام یحییٰ بن معین ، امام یعقوب بن شیبہ ؒ ، امام نسائی ؒ ، امام احمد ؒ ، امام ابن سعد ؒ ، امام ابن حبان ؒ ، امام خلیلی ؒ ، امام مالک ؒ وغیرہ تمام ائمہ رجال نے ان کی زبردست توثیق کی ہے ۔ ( تھذیب 9/303۔304 )
امام بخاری ؒ اور حافظ ذہبی ؒ لکھتے ہیں : کہ یہ بڑے ائمہ ثقات میں سے ایک امام ہیں اور ان کی عدالت و ثقاہت عند المحدثین متفق علیہ ہے ۔ ( تاریخ الکبیر 1/152 میزان الاعتدال 3/32 )
حافظ ابن حجر ان کے بارے میں لکھتے ہیں : ثقہ فقیہ فاضل ۔ ( تقریب التھذیب 2/105 )
7 ۔ یزید بن عبد اللہ بن خصیفہ :
امام احمد بن حنبل ؒ ، امام ابو حاتم ؒ اور امام نسائی ؒ وغیرہ ان کو ثقہ کہتے ہیں ، امام ابن حبان ؒ نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے ۔ امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن معین ؒ ان کے بارے میں فرماتے ہیں ۔ ثقۃ حجۃ ۔ امام ابن سعد ؒ فرماتے ہیں ۔ کان عابدا ، ناسکا ، کثیر الحدیث ، ثبتا ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں ۔ وکان ثقۃ مامونا ۔ ( تھذیب الکمال 20/335۔336 تھذیب التھذیب 11/298 )
علامہ ابن عبد البر ؒ ان کے بارے میں لکھتے ہیں : وھو یزید بن خصیفۃ بن یزید بن عبد اللہ الکندی بن اخی السائب بن یزید الکندی وکان ثقۃ مامونا محدثا محسنا ۔ ( التمہید شرح مؤطا 6/431 )
8 ۔ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ :
حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ صحابی رسول ﷺ ہیں اور آپ کے والد حضرت یزید رضی اللہ عنہ بھی اصحاب رسول ﷺ میں سے ہیں ۔ حضرت سائب اپنے والد کے ساتھ حجۃ الوداع میں شریک تھے اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں انہیں ایک بازار کا نگران مقرر کیا تھا ۔ ( تقریب التھذیب 1/338 )
مولانا ابرہیم سیالکوٹی صاحب غیر مقلد ان کے بارے میں لکھتے ہیں : انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ یقینا پایا ہے ۔ کیونکہ یہ صحابی رسول ﷺ ہیں اور مدینہ منورہ میں سب صحابہ کے بعد فوت ہوئے ۔ ( انارۃ المصابیح ص28 )
لہذا یہ روایت بالکل صحیح ہے اور متصل السند ہے اس روایت کا ہر ہر راوی نہایت ثقہ اور عادل ہے ۔
اعتراض نمبر 1 :
حافظ زبیر علی زئی پیر دادی غیر مقلد اس روایت پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اس روایت کا ایک راوی علی بن الجعد تشیع کے ساتھ مجروح ہے ، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تنقیص کرتا تھا ایسے مختلف فیہ راوی کی روایت مؤطا امام مالک کی صحیح روایت کے خلاف کیوں کر پیش کی جاسکتی ہے ؟؟ ( تعداد رکعات ، قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ ص 28 )
الجواب :
یہ اعتراض کئی وجوہ سے باطل ہے :
اولا :
علی بن الجعد بخاری شریف کے راوی ہیں ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں کہ امام بخاری نے باوجود محتاط ہونے کے ان سے تیرہ حدیثیں اپنی کتاب صحیح بخاری میں روایت کی ہیں ۔ ( تھذیب التھذیب 7/285 )
اسی طرح حافظ نے تقریب التھذیب 1/689 میں اور امام سیوطی ؒ نے تدریب الراوی 1/279 میں علی بن الجعد کو بخاری شریف کے رایوں میں شمار کیا ہے ۔ اب معترض موصوف کو چاہیئے کہ وہ مذکورہ روایت پر اعتراض کرنے سے پہلے یہی اعتراض امام بخاری پر کرے کہ انہوں نے ایسے راوی کی روایات اپنی صحیح میں کیوں داخل کی ہیں ۔ دیدہ باید لیکن
ع مشکل بہت پڑے گی برابر کی چوٹ ہے
ثانیا :
علی بن الجعد نہایت ثقہ و عادل راوی ہیں ، تمام کبار محدثین نے ان کی توثیق کی ہے اور امام بخاری ؒ نے بھی اپنی صحیح میں ان سے احادیث روایت کی ہیں ۔
مولانا نزیر احمد رحمانی صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں کہ : جمہور ائمہ مسلمین نے ان دونوں کتابوں ( بخاری و مسلم ) کا صحیح ہونا تسلیم کیا ہے ، جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ ان کے راویوں کی عدالت پر جمہور امت کا اتفاق ہے ۔ ( انوار المصابیح ص219 )
خود معترض زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں : اصحاب صحیح کا کسی راوی سے صحیح میں اخراج اس راوی کی ان کے نزدیک توثیق ہوتی ہے ۔ (تعداد رکعات قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ ص 71 )
پس جب علی بن الجعد ثقہ راوی ہیں اور ان کی توثیق غیر مقلدین اور خود معترض کے نزدیک بھی ثابت ہے تو پھر ان شیعی ہونا صحت حدیث کے منافی نہیں ۔ کیونکہ خود معترض زبیر صاحب نے لکھا ہے کہ : جس راوی کا ثقہ و صدوق ہونا ثابت ہوجائے اس کا قدری ، خارجی ، رافضی ، شیعی ، معتزلی ، جہمی ، مرجی وغیرہ ہونا صحت حدیث کے خلاف نہیں ہے بشرطیکہ وہ داعی بدعت کی طرف نہ ہو ۔ ( نور العینین ص 25 )
اور علی بن الجعد کا داعی بدعت کی طرف ہونا ہرگز ثابت نہیں ۔ لہذا اس روایت کا صحیح ہونا اور اس پر اعتراض کا باطل ہونا خود معترض کے نزدیک بھی ثابت ہوگیا ۔
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
ثالثا :
حافظ ابن حجر ؒ نے علی بن الجعد کے بارے میں رمی بالتشیع ( تقریب 1/689 ) فرمایا ہے یعنی اس پر شیعہ ہونے کا الزام لگایا گیا ہے جب کہ اس کے بالمقابل یعقوب قمی ( جو گیارہ رکعات کے راوی ہیں ) کو حافظ ابن کثیر ؒ نے بالجزم شیعہ قرار دیا ہے ۔ ( دیکھئے البدایۃ والنھایۃ 3/375 )
اب جس راوی پر صرف تشیع کا الزام ہے اس کی روایت تو غیر مقلدین کے نزدیک ضعیف ہے لیکن جو بالیقین شیعہ راوی ہے اس کی روایت غیر مقلدین کے ہاں قابل قبول ہے ۔
ع ناطقہ سر بگریباں اسے کیا کہیے
رابعا :
علی بن الجعد اگر شیعہ ہے بھی تو وہ متقدمین شیعہ میں سے ہے اور علمائے متقدمین کی اصطلاح میں شیعہ اس کو کہتے ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر فضیلت دیتا ہے اور اس کو تفضیلی شیعہ بھی کہتے ہیں ۔ ان متقدمین شیعوں میں موجودہ شیعوں کی طرح کفریہ عقائد ( تکفیر صحابہ رضی اللہ عنہم ، انکار قرآن اور عقیدہ رجعت وغیرہ ) نہیں پائے جاتے تھے بلکہ جو شخص ان کفریہ عقائد کا معتقد ہوتا تھا اس کو علمائے قدیم رافضی یا غالی شیعہ سے پکارتے تھے ۔ چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں :
والتشیع محبۃ علی رضی اللہ عنہ و تقدیمہ علی الصحابۃ رضی اللہ عنہم فمن قدمہ علی ٰ ابی بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ فھو غال فی التشیع و یطلق علیہ رافضی والا فشیعی فان انضاف الی ذالک السب او التصریح بالبغض فغال فی الرفض وان اعتقد الرجعۃ الی الدنیا فاشد فی الغلو ۔ ( ھدی الساری 459 )
یعنی اصطلاح قدیم میں شیعت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت اور ان کو دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے افضل سمجھنے کا نام ہے ۔ جو شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر مقدم سمجھتا ہے تو وہ غالی شیعہ ہے اسی کو رافضی کہا جاتا ہے ورنہ اس کو شیعی کہتے ہیں ۔ پھر اگر اس کے ساتھ سب و شتم یا بغض و نفرت کا اظہار بھی ہو تو وہ رافضیت میں غلو کرنے والا ہے اور اگر وہ ( حضرت علی رضی اللہ عنہ ) کے دوبارہ دنیا میں آنے کا عقیدہ رکھتا ہو تو وہ غلو میں بھی آگے ہے ۔
مولانا ارشاد الحق اثری غیر مقلد لکھتے ہیں :
متقدمین عرف میں شیعہ اس کو کہتے ہیں جو صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر فضیلت دے ۔ ( رسالہ مولانا سرفراز خان صفدر اپنی تصانیف کے آئینے میں ص66 ) چونکہ موجودہ شیعوں میں بھی رافضیوں کی طرح کفریہ عقائد پائے جاتے ہیں اس لئے اب شیعہ اور رافضی کا مصداق ایک ہی ہے لیکن اصطلاح قدیم میں ان دونوں میں فرق تھا ۔ پس جو راوی صرف تشیع کیساتھ مجروح ہو اور اس میں رافضیوں کے کفریہ عقائد نہ پائے جاتے ہوں تو ایسے راوی کی روایت قابل قبول ہوتی ہے کیونکہ ایسے تفضیلی راویوں کی روایتیں تو صحیحین میں بھی موجود ہیں ۔ چنانچہ صرف امام سیوطی ؒ نے تقریبا پچیس راوی ایسے شمار کئے ہیں جو صرف تشیع کے ساتھ مجروح ہیں ۔ ( دیکھئے تدریب الراوی 1/279 ) اور امام حاکم تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ صحیح مسلم تو ایسے رایوں سے بھری ہوئی ہے ۔ ( حوالہ سابق ) البتہ باقرار غیر مقلدین صحیحین میں غالی اور تبرائی شیعوں کی روایت لینے سے اجتناب کیا گیا ہے ۔ چنانچہ غیر مقلدین کے شیخ الحدیث اور ہفت روزہ الاعتصام کے مفتی ثناء اللہ مدنی صاحب لکھتے ہیں : صحیح بخاری میں کسی غالی مذہبی ( شیعہ وغیرہ ۔ ناقل ) کی روایت نہیں لی گئی ۔ ( الاعتصام ص 13 28 مئی 1999 ء ) اور چونکہ علی بن الجعد بھی بخاری شریف کے راوی ہیں ، لہذا ان پر یہ الزام لگانا کہ وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تنقیض کرتے تھے بالکل غلط ہے جو لوگ اپنے آپ کو اہل حدیث کہلواتے ہیں ان کو بخاری شریف کے راویوں پر ایسے اعتراض کرتے ہوئے شرم آنی چاہیئے ۔
ع شرم تم کو مگر نہیں آتی
باقی رہا یہ سوال کہ ایسے راوی کی روایت مؤطا کی روایت کے خلاف کیوں کر پیش کی جاسکتی ہے ؟؟
تو اس کا جواب بزرگ غیر مقلد عالم مولانا میاں غلام رسول صاحب کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں ۔ میاں صاحب اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں : جب امام ابن عبد البر ؒ اور شاہ ولی اللہ دہلوی اور شیخ عبد الحق اور صاحب کبیری نے بیہقی کی سند کو صحیح قرار دیا ہے اور اسی حدیث کو جمہور اپنی دلیل گردانتے ہیں اور اسناد صحیح کے لفظ سے اس کی صحت کو صراحت سے بیان کرتے ہیں تو یہ حدیث صحت اور قوت میں مؤطا کی حدیث سے زیادہ بڑھی ہوئی ہے کیونکہ اس میں زیادۃ ہے ( جو اصول کے لحاظ سے واجب القبول ہے ۔ ) ( رسالہ تراویح مع ترجمہ ینابیع ص 42 )
اس سے بہتر اور تسلی بخش جواب غیر مقلدین کیلئے اور کیا ہوسکتا ہے ؟؟ اور اگر اس سے بھی زیادہ تسلی بخش جواب چاہیئے تو پھر مؤطا کی روایت کے جواب میں دیکھے جہاں ہم نے اس پر تفصیل کیساتھ بحث کی ہے ۔
اعتراض ثانی :
بعض غیر مقلدین نے لکھا ہے کہ گیارہ رکعات والی روایت بیس رکعات والی پر راجح ہے کیونکہ گیارہ رکعات والی روایت کے راوی محمد بن یوسف کے حق میں حافظ ابن حجر نے تقریب میں ثقہ ثبت دو لفظ استعمال کئے ہیں جبکہ بیس رکعات کے راوی یزید بن خصیفہ کے حق میں حافظ نے صرف ایک لفظ ثقہ استعمال کیا ہے ۔ لہذا محمد بن یوسف کی روایت یزید کی اس بیس رکعات والی پر راجح ہے ۔
الجواب :
ان دونوں روایتوں میں سے کون سی روایت راجح ہے ؟؟ اس کی تفصیلی بحث تو حصہ دوئم میں آئے گی ۔ یہاں صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ اگر غیر مقلدین کے اس بیان کردہ قاعدہ ترجیح کو سامنے رکھا جائے تو پھر بھی یزید کی روایت محمد بن یوسف کی روایت پر راجح ہے کیونکہ یزید کے ترجمہ میں ابھی گزرا کہ امام یحییٰ بن معین جو جرح اور تعدیل کے امام ہیں ۔ نے یزید کے حق میں ثقہ حجۃ دو لفظ استعمال کیے ہیں جبکہ انہوں نے محمد بن یوسف کے حق میں صرف ایک لفظ ثقہ کہا ہے ۔ ( دیکھئے تہذیب 9/534 )
اسی طرح امام محمد بن سعد نے یزید کے حق میں چار لفظ ( عابد ، ناسک ، کثیر الحدیث اور ثبت ) استعمال کیے ہیں جبکہ محمد بن یوسف کے حق میں ان سے کچھ بھی منقول نہیں ۔ اسی طرح علامہ ابن عبد البر ؒ نے بھی ان کے حق میں ثقہ ، مامون ، محدث اور محسن کے چار توثیقی الفاظ استعمال کیئے ہیں ۔ نیز اگر حافظ ابن حجر نے تقریب میں محمد بن یوسف کے حق میں دو لفظ استعمال کیئے ہیں تو انہوں نے اپنی دوسری کتاب تہذیب التہذیب میں یزید بن خصیفہ کے حق میں بھی دو لفظ ثقہ اور مامون استعمال فرمائے ہیں ۔ لہذا غیر مقلدین کے بیان کردہ قاعدہ ترجیح کے موافق بھی یزید کی روایت راجح ہے ۔
اسی طرح غیر مقلدین کی اس روایت کو مرجوح قرار دینے کی یہ دلیل بھی باطل ہے کہ گیارہ رکعات کے راوی محمد بن یوسف حضرت سائب رضی اللہ عنہ کے قریبی رشتہ دار ہیں کیونکہ حضرت سائب رضی اللہ عنہ ان کے نانا یا ماموں یا چچا تھے ۔ لہذا ان کی روایت یزید بن خصیفہ ( جو حضرت سائب رضی اللہ عنہ کے رشتہ دار نہیں ہیں ) کی روایت پر راجح ہوگی ۔ ( انارۃ المصابیح ص 40 )
لیکن یہ بھی غیر مقلدین کا نرا وہم ہے کیونکہ یزید بن خصیفہ بھی حضرت سائب رضی اللہ عنہ کے رشتہ دار یعنی بھانجے تھے ۔ چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے حجرت سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں ان سے روایت کرنے والے رایوں کو شمار کرتے ہوئے جب یزید بن خصیفہ کو شمار کیا تو فرمایا ۔ وابن اختہ یزید بن عبد اللہ بن خصیفہ و جماعۃ ۔ ( تہذیب التہذیب 3/450 )
یعنی حضرت سائب رضی اللہ عنہ سے ان کے بھانجے یزید بن خصیفہ نے بھی روایت کی ہے ۔ جب کہ علامہ ابن عبد البر ؒ کی رائے ہے کہ یہ حضرت سائب رضی اللہ عنہ کے بھائی کے بیٹے یعنی بھتیجے ہیں ۔ جیسا کہ ان کا حوالہ گزر چکا ہے ۔ لہذا غیر مقلدین کی یہ وجہ ترجیح بھی باطل ہوگئی اور غیر مقلدین کے اس صحیح روایت پر تمام اعتراضات ھباء منثورا ہوگئے
اب تک ہم نے عہد فاروقی کے دور میں بیس رکعات تراویح کے ثبوت پر دلائل پیش کئے اب ہم بیس رکعات تراویح عہد فاروقی و عہد عثمانی پر دلائل پیش کرتے ہیں
روایت نمبر 7 :
امام بیہقی ؒ فرماتے ہیں : وقد اخبرنا ابو عبد اللہ الحسین ابن محمد بن الحسین ابن فنجویہ الدینوری بالدامغان ثنا احمد بن محمد بن اسحاق السنی ثنا عبد اللہ بن محمد بن عبد العزیز البغوی ثنا علی بن الجعد انبانا ابن ابی ذئب عب یزید بن خصیفہ عن السائب بن یزید رضی اللہ عنہ قال کانوا یقومون علی عھد عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فی شھر رمضان بعشرین رکعۃ قال وکانوا یقرؤن بالمئین وکانوا یتوکؤن علی عصیھم فی عھد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ من شدۃ القیام ۔ ( السنن الکبریٰ للبیہقی 2/496 )
ترجمہ :
حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بیس رکعات ( تراویح ) کے ساتھ قیام کرتے تھے اور ( قراء حضرات ) سو سو آیات والی سورتیں پڑھتے تھے اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں لوگ شدت قیام کی وجہ سے لاٹھیوں پڑ ٹیک لگاتے تھے ۔
چونکہ اس روایت کا آخری جملہ لوگ یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شدت قیام کی وجہ سے لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے تھے بیس رکعات کے ضمن میں مروی ہے تو اس سے ظاہر یہی ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت کی طرح بیس رکعات تراویح ہی پڑھی جاتی تھیں کیونکہ جب راوی حضرت سائب ؒ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی بیس رکعات کے پڑھے جانے کا ذکر کیا تو اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں بیس کے علاوہ کسی اور عدد پر عمل ہوتا تو راوی ضرور اس کو بھی ذکر فرماتے ۔ پس راوی کا اس موقعہ پر سکوت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بھی عہد فاروقی کی طرح بیس رکعات تراویح ہی پڑھی جاتی تھیں ۔ کیونکہ سکوت فی محل البیان بیان ہی ہوتا ہے ۔
نیز حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بھی بیس رکعات تراویح پر عمل درآمد ہونا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ عہد عثمانی میں بھی بیس رکعات تراویح پر ہی عمل رہا ۔
اس مذکورہ روایت کو متعدد محدثین مثلا ۔ امام نووی ؒ ، امام سیوطی ؒ ، امام ابن العراقی ؒ ، اور علامہ نیموی ؒ وغیرہ نے صحیح قرار دیا ہے ۔ ( دیکھئے آثار السنن مع التعلیق الحسن ص 251 )
مولوی ایوب صابر صاحب غیر مقلد اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ : اس حدیث کی سند بلا غبار صحیح ہے ۔ ( تحقیق تراویح ص 51 )
اب اس روایت کے ہر ہر راوی کا تذکرہ اور توثیق کتب اسماء الرجال سے ملاحظہ ہو ۔
1 ۔ صاحب سنن امام احمد بن حسین البیہقی
صاحب سنن امام احمد بن حسین البیہقی ؒ مشہور محدث اور جلیل القدر امام ہیں علامہ ذہبی ؒ ان کے متعلق لکھتے ہیں : الامام ، الحافظ ، العلامہ ، شیخ الخراسان ۔ ( تذکرۃ الحفاظ 3/309 )
2 ۔ ابو عبد اللہ حسین ابن فنجویہ الدینوری :
حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ حسن بن محمود کے ترجمہ میں لکھتے ہیں : وشیخہ ھو الحسن بن عبد اللہ بن فنجویہ ، حافظ کبیر مصنف نیز فرماتے ہیں کہ یہ معروف راوی ہیں ۔ ( دیکھئے لسان المیزان 2/295۔296 طبع بیروت )
اسی طرح حافظ موصوف محمد بن علی المعتصم الھاشمی کے ترجمہ میں بھی ابن فنجویہ کو ثقہ راویوں میں شمار کیا ہے ۔ ( ایضا 5/301 )
امام ذہبی ؒ ان کے بارے میں فرماتے ہیں ، الامام المحدث ، بقیۃ المشائخ امام شیرویہ اپنی تاریخ میں ابن فنجویہ کے بارے میں لکھتے ہیں : کان ثقہ صدوقا ، کثیر التصانیف ۔ ( سیر اعلاء النبلاء 17/383۔384 )
علامہ ابن العماد فرماتے ہیں : ابن فنجویہ ثقہ مصنفا ۔ ( شذرات الذھب 3/200 )
علامہ نیموی لکھتے ہیں ۔ فھو من کبار المحدثین لا یسئل عن مثلہ ۔ ( التعلیق الحسن ص 251 )
اس سے مولانا عبد الرحمان مبارکپوری صاحب غیر مقلد کا یہ مطالبہ پورا ہوگیا کہ ۔ فمن یدعی صحۃ ھذا الاثر ان یثبت کونہ ثقہ قابلا للاحتجاج ۔ ( تحفۃ الاحوذی 2/75 ) یعنی جو شخص اس اثر کی صحت کا مدعی ہو اس پر لازم ہے کہ وہ ابن فنجویہ کا ثقہ اور قابل احتجاج ہونا ثابت کرے ۔
3 ۔ احمد بن محمد بن اسحاق السنی :
یہ مشہور کتاب عمل الیوم واللیلہ کے مصنف اور سنن نسائی کے راوی و مرتب ہیں ۔ حافظ ذہبی ؒ طبقات الحفاظ میں ان کے بارے میں فرماتے ہیں ۔ کان دینا خیر اصدوقا اختر السنن و سماہ المجتبی ۔ ( التعلیق الحسن للنیموی ؒ ص251 )
نیز حافظ ذہبی ؒ تذکرۃ الحفاظ میں ان کے بارے میں لکھتے ہیں : الحافظ ، الامام ، الثقۃ ۔ ( تذکرہ 3/939 )
حافظ تاج الدین سبکی ؒ فرماتے ہیں : کان رجلا صالحا فقیھا ۔ ( طبقات الکبریٰ 3/39 )
4 ۔ عبد اللہ بن محمد البغوی ؒ :
علامہ خطیب بغدادی ان کے بارے میں لکھتے ہیں : کان ثقۃ ، ثبتا ، مکثرا ، فھما ، عارفا ،
امام دار قطنی ؒ فرماتے ہیں : ثقۃ ، جبل ، امام من ائمۃ الحدیث ۔ (التعلیق الحسن للنیموی ؒ ص251 )
امام ذہبی ؒ ان کو الحافظ ، الامام الحجۃ کے القاب سے یاد فرماتے ہیں ۔ ( سیر اعلاء النبلاء 14/440 )
5۔ علی بن الجعد :
یہ امام بخاری ؒ کے استاد ہیں ، اور امام بخاری ؒ نے تیرہ حدیثیں ان سے اپنی صحیح میں روایت فرمائی ہیں ، نیز یہ نہایت ثقہ راوی ہیں ۔ چنانچہ امام صالح ؒ ان کو ثقہ بتلاتے ہیں ، امام نسائیؒ ان کو صدوق کہتے ہیں ، امام ابو زرعہؒ فرماتے ہیں : کان صدوقا فی الحدیث ۔ امام ابو حاتم ؒ فرماتے ہیں : کان متقنا صدوقا ۔ نیز فرماتے ہیں کہ محدثین میں سے میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو علی بن الجعد کی طرح احادیث یاد رکھنے والا ہو ۔ امام ابن قانع فرماتے ہیں : ثقہ ثبت ۔ امام محمد بن صالح اور امام مطین بھی ان کو ثقہ کہتے ہیں ، امام فن رجال حضرت یحییٰ بن معین ان کو ثقہ صدوق ، ثقہ صدوق دو دفعہ کہہ کر ان کی ڈبل توثیق کرتے ہیں ۔ نیز فرماتے ہیں کہ علی بن الجعد ربانی العلم ہیں ۔ ( دیکھئے تھذیب الکمال 13/216۔217 تھذیب التھذیب 7/258 )
حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ ان کے بارے میں لکھتے ہیں : ثقۃ ، ثبت رمی بالتشیع ۔ ( تقریب التھذیب 1/689)
6 ۔ محمد بن عبد الرحمٰن بن ابی ذئب :
یہ ثقہ ، صدوق اور صحاح ستہ کے راوی ہیں ۔ امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ یہ سعید بن المسیب ؒ کے مشابہ تھے ۔ امام یحییٰ بن معین ، امام یعقوب بن شیبہ ؒ ، امام نسائی ؒ ، امام احمد ؒ ، امام ابن سعد ؒ ، امام ابن حبان ؒ ، امام خلیلی ؒ ، امام مالک ؒ وغیرہ تمام ائمہ رجال نے ان کی زبردست توثیق کی ہے ۔ ( تھذیب 9/303۔304 )
امام بخاری ؒ اور حافظ ذہبی ؒ لکھتے ہیں : کہ یہ بڑے ائمہ ثقات میں سے ایک امام ہیں اور ان کی عدالت و ثقاہت عند المحدثین متفق علیہ ہے ۔ ( تاریخ الکبیر 1/152 میزان الاعتدال 3/32 )
حافظ ابن حجر ان کے بارے میں لکھتے ہیں : ثقہ فقیہ فاضل ۔ ( تقریب التھذیب 2/105 )
7 ۔ یزید بن عبد اللہ بن خصیفہ :
امام احمد بن حنبل ؒ ، امام ابو حاتم ؒ اور امام نسائی ؒ وغیرہ ان کو ثقہ کہتے ہیں ، امام ابن حبان ؒ نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے ۔ امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن معین ؒ ان کے بارے میں فرماتے ہیں ۔ ثقۃ حجۃ ۔ امام ابن سعد ؒ فرماتے ہیں ۔ کان عابدا ، ناسکا ، کثیر الحدیث ، ثبتا ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں ۔ وکان ثقۃ مامونا ۔ ( تھذیب الکمال 20/335۔336 تھذیب التھذیب 11/298 )
علامہ ابن عبد البر ؒ ان کے بارے میں لکھتے ہیں : وھو یزید بن خصیفۃ بن یزید بن عبد اللہ الکندی بن اخی السائب بن یزید الکندی وکان ثقۃ مامونا محدثا محسنا ۔ ( التمہید شرح مؤطا 6/431 )
8 ۔ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ :
حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ صحابی رسول ﷺ ہیں اور آپ کے والد حضرت یزید رضی اللہ عنہ بھی اصحاب رسول ﷺ میں سے ہیں ۔ حضرت سائب اپنے والد کے ساتھ حجۃ الوداع میں شریک تھے اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں انہیں ایک بازار کا نگران مقرر کیا تھا ۔ ( تقریب التھذیب 1/338 )
مولانا ابرہیم سیالکوٹی صاحب غیر مقلد ان کے بارے میں لکھتے ہیں : انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ یقینا پایا ہے ۔ کیونکہ یہ صحابی رسول ﷺ ہیں اور مدینہ منورہ میں سب صحابہ کے بعد فوت ہوئے ۔ ( انارۃ المصابیح ص28 )
لہذا یہ روایت بالکل صحیح ہے اور متصل السند ہے اس روایت کا ہر ہر راوی نہایت ثقہ اور عادل ہے ۔
اعتراض نمبر 1 :
حافظ زبیر علی زئی پیر دادی غیر مقلد اس روایت پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اس روایت کا ایک راوی علی بن الجعد تشیع کے ساتھ مجروح ہے ، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تنقیص کرتا تھا ایسے مختلف فیہ راوی کی روایت مؤطا امام مالک کی صحیح روایت کے خلاف کیوں کر پیش کی جاسکتی ہے ؟؟ ( تعداد رکعات ، قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ ص 28 )
الجواب :
یہ اعتراض کئی وجوہ سے باطل ہے :
اولا :
علی بن الجعد بخاری شریف کے راوی ہیں ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں کہ امام بخاری نے باوجود محتاط ہونے کے ان سے تیرہ حدیثیں اپنی کتاب صحیح بخاری میں روایت کی ہیں ۔ ( تھذیب التھذیب 7/285 )
اسی طرح حافظ نے تقریب التھذیب 1/689 میں اور امام سیوطی ؒ نے تدریب الراوی 1/279 میں علی بن الجعد کو بخاری شریف کے رایوں میں شمار کیا ہے ۔ اب معترض موصوف کو چاہیئے کہ وہ مذکورہ روایت پر اعتراض کرنے سے پہلے یہی اعتراض امام بخاری پر کرے کہ انہوں نے ایسے راوی کی روایات اپنی صحیح میں کیوں داخل کی ہیں ۔ دیدہ باید لیکن
ع مشکل بہت پڑے گی برابر کی چوٹ ہے
ثانیا :
علی بن الجعد نہایت ثقہ و عادل راوی ہیں ، تمام کبار محدثین نے ان کی توثیق کی ہے اور امام بخاری ؒ نے بھی اپنی صحیح میں ان سے احادیث روایت کی ہیں ۔
مولانا نزیر احمد رحمانی صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں کہ : جمہور ائمہ مسلمین نے ان دونوں کتابوں ( بخاری و مسلم ) کا صحیح ہونا تسلیم کیا ہے ، جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ ان کے راویوں کی عدالت پر جمہور امت کا اتفاق ہے ۔ ( انوار المصابیح ص219 )
خود معترض زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں : اصحاب صحیح کا کسی راوی سے صحیح میں اخراج اس راوی کی ان کے نزدیک توثیق ہوتی ہے ۔ (تعداد رکعات قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ ص 71 )
پس جب علی بن الجعد ثقہ راوی ہیں اور ان کی توثیق غیر مقلدین اور خود معترض کے نزدیک بھی ثابت ہے تو پھر ان شیعی ہونا صحت حدیث کے منافی نہیں ۔ کیونکہ خود معترض زبیر صاحب نے لکھا ہے کہ : جس راوی کا ثقہ و صدوق ہونا ثابت ہوجائے اس کا قدری ، خارجی ، رافضی ، شیعی ، معتزلی ، جہمی ، مرجی وغیرہ ہونا صحت حدیث کے خلاف نہیں ہے بشرطیکہ وہ داعی بدعت کی طرف نہ ہو ۔ ( نور العینین ص 25 )
اور علی بن الجعد کا داعی بدعت کی طرف ہونا ہرگز ثابت نہیں ۔ لہذا اس روایت کا صحیح ہونا اور اس پر اعتراض کا باطل ہونا خود معترض کے نزدیک بھی ثابت ہوگیا ۔
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
ثالثا :
حافظ ابن حجر ؒ نے علی بن الجعد کے بارے میں رمی بالتشیع ( تقریب 1/689 ) فرمایا ہے یعنی اس پر شیعہ ہونے کا الزام لگایا گیا ہے جب کہ اس کے بالمقابل یعقوب قمی ( جو گیارہ رکعات کے راوی ہیں ) کو حافظ ابن کثیر ؒ نے بالجزم شیعہ قرار دیا ہے ۔ ( دیکھئے البدایۃ والنھایۃ 3/375 )
اب جس راوی پر صرف تشیع کا الزام ہے اس کی روایت تو غیر مقلدین کے نزدیک ضعیف ہے لیکن جو بالیقین شیعہ راوی ہے اس کی روایت غیر مقلدین کے ہاں قابل قبول ہے ۔
ع ناطقہ سر بگریباں اسے کیا کہیے
رابعا :
علی بن الجعد اگر شیعہ ہے بھی تو وہ متقدمین شیعہ میں سے ہے اور علمائے متقدمین کی اصطلاح میں شیعہ اس کو کہتے ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر فضیلت دیتا ہے اور اس کو تفضیلی شیعہ بھی کہتے ہیں ۔ ان متقدمین شیعوں میں موجودہ شیعوں کی طرح کفریہ عقائد ( تکفیر صحابہ رضی اللہ عنہم ، انکار قرآن اور عقیدہ رجعت وغیرہ ) نہیں پائے جاتے تھے بلکہ جو شخص ان کفریہ عقائد کا معتقد ہوتا تھا اس کو علمائے قدیم رافضی یا غالی شیعہ سے پکارتے تھے ۔ چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں :
والتشیع محبۃ علی رضی اللہ عنہ و تقدیمہ علی الصحابۃ رضی اللہ عنہم فمن قدمہ علی ٰ ابی بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ فھو غال فی التشیع و یطلق علیہ رافضی والا فشیعی فان انضاف الی ذالک السب او التصریح بالبغض فغال فی الرفض وان اعتقد الرجعۃ الی الدنیا فاشد فی الغلو ۔ ( ھدی الساری 459 )
یعنی اصطلاح قدیم میں شیعت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت اور ان کو دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے افضل سمجھنے کا نام ہے ۔ جو شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر مقدم سمجھتا ہے تو وہ غالی شیعہ ہے اسی کو رافضی کہا جاتا ہے ورنہ اس کو شیعی کہتے ہیں ۔ پھر اگر اس کے ساتھ سب و شتم یا بغض و نفرت کا اظہار بھی ہو تو وہ رافضیت میں غلو کرنے والا ہے اور اگر وہ ( حضرت علی رضی اللہ عنہ ) کے دوبارہ دنیا میں آنے کا عقیدہ رکھتا ہو تو وہ غلو میں بھی آگے ہے ۔
مولانا ارشاد الحق اثری غیر مقلد لکھتے ہیں :
متقدمین عرف میں شیعہ اس کو کہتے ہیں جو صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر فضیلت دے ۔ ( رسالہ مولانا سرفراز خان صفدر اپنی تصانیف کے آئینے میں ص66 ) چونکہ موجودہ شیعوں میں بھی رافضیوں کی طرح کفریہ عقائد پائے جاتے ہیں اس لئے اب شیعہ اور رافضی کا مصداق ایک ہی ہے لیکن اصطلاح قدیم میں ان دونوں میں فرق تھا ۔ پس جو راوی صرف تشیع کیساتھ مجروح ہو اور اس میں رافضیوں کے کفریہ عقائد نہ پائے جاتے ہوں تو ایسے راوی کی روایت قابل قبول ہوتی ہے کیونکہ ایسے تفضیلی راویوں کی روایتیں تو صحیحین میں بھی موجود ہیں ۔ چنانچہ صرف امام سیوطی ؒ نے تقریبا پچیس راوی ایسے شمار کئے ہیں جو صرف تشیع کے ساتھ مجروح ہیں ۔ ( دیکھئے تدریب الراوی 1/279 ) اور امام حاکم تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ صحیح مسلم تو ایسے رایوں سے بھری ہوئی ہے ۔ ( حوالہ سابق ) البتہ باقرار غیر مقلدین صحیحین میں غالی اور تبرائی شیعوں کی روایت لینے سے اجتناب کیا گیا ہے ۔ چنانچہ غیر مقلدین کے شیخ الحدیث اور ہفت روزہ الاعتصام کے مفتی ثناء اللہ مدنی صاحب لکھتے ہیں : صحیح بخاری میں کسی غالی مذہبی ( شیعہ وغیرہ ۔ ناقل ) کی روایت نہیں لی گئی ۔ ( الاعتصام ص 13 28 مئی 1999 ء ) اور چونکہ علی بن الجعد بھی بخاری شریف کے راوی ہیں ، لہذا ان پر یہ الزام لگانا کہ وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تنقیض کرتے تھے بالکل غلط ہے جو لوگ اپنے آپ کو اہل حدیث کہلواتے ہیں ان کو بخاری شریف کے راویوں پر ایسے اعتراض کرتے ہوئے شرم آنی چاہیئے ۔
ع شرم تم کو مگر نہیں آتی
باقی رہا یہ سوال کہ ایسے راوی کی روایت مؤطا کی روایت کے خلاف کیوں کر پیش کی جاسکتی ہے ؟؟
تو اس کا جواب بزرگ غیر مقلد عالم مولانا میاں غلام رسول صاحب کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں ۔ میاں صاحب اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں : جب امام ابن عبد البر ؒ اور شاہ ولی اللہ دہلوی اور شیخ عبد الحق اور صاحب کبیری نے بیہقی کی سند کو صحیح قرار دیا ہے اور اسی حدیث کو جمہور اپنی دلیل گردانتے ہیں اور اسناد صحیح کے لفظ سے اس کی صحت کو صراحت سے بیان کرتے ہیں تو یہ حدیث صحت اور قوت میں مؤطا کی حدیث سے زیادہ بڑھی ہوئی ہے کیونکہ اس میں زیادۃ ہے ( جو اصول کے لحاظ سے واجب القبول ہے ۔ ) ( رسالہ تراویح مع ترجمہ ینابیع ص 42 )
اس سے بہتر اور تسلی بخش جواب غیر مقلدین کیلئے اور کیا ہوسکتا ہے ؟؟ اور اگر اس سے بھی زیادہ تسلی بخش جواب چاہیئے تو پھر مؤطا کی روایت کے جواب میں دیکھے جہاں ہم نے اس پر تفصیل کیساتھ بحث کی ہے ۔
اعتراض ثانی :
بعض غیر مقلدین نے لکھا ہے کہ گیارہ رکعات والی روایت بیس رکعات والی پر راجح ہے کیونکہ گیارہ رکعات والی روایت کے راوی محمد بن یوسف کے حق میں حافظ ابن حجر نے تقریب میں ثقہ ثبت دو لفظ استعمال کئے ہیں جبکہ بیس رکعات کے راوی یزید بن خصیفہ کے حق میں حافظ نے صرف ایک لفظ ثقہ استعمال کیا ہے ۔ لہذا محمد بن یوسف کی روایت یزید کی اس بیس رکعات والی پر راجح ہے ۔
الجواب :
ان دونوں روایتوں میں سے کون سی روایت راجح ہے ؟؟ اس کی تفصیلی بحث تو حصہ دوئم میں آئے گی ۔ یہاں صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ اگر غیر مقلدین کے اس بیان کردہ قاعدہ ترجیح کو سامنے رکھا جائے تو پھر بھی یزید کی روایت محمد بن یوسف کی روایت پر راجح ہے کیونکہ یزید کے ترجمہ میں ابھی گزرا کہ امام یحییٰ بن معین جو جرح اور تعدیل کے امام ہیں ۔ نے یزید کے حق میں ثقہ حجۃ دو لفظ استعمال کیے ہیں جبکہ انہوں نے محمد بن یوسف کے حق میں صرف ایک لفظ ثقہ کہا ہے ۔ ( دیکھئے تہذیب 9/534 )
اسی طرح امام محمد بن سعد نے یزید کے حق میں چار لفظ ( عابد ، ناسک ، کثیر الحدیث اور ثبت ) استعمال کیے ہیں جبکہ محمد بن یوسف کے حق میں ان سے کچھ بھی منقول نہیں ۔ اسی طرح علامہ ابن عبد البر ؒ نے بھی ان کے حق میں ثقہ ، مامون ، محدث اور محسن کے چار توثیقی الفاظ استعمال کیئے ہیں ۔ نیز اگر حافظ ابن حجر نے تقریب میں محمد بن یوسف کے حق میں دو لفظ استعمال کیئے ہیں تو انہوں نے اپنی دوسری کتاب تہذیب التہذیب میں یزید بن خصیفہ کے حق میں بھی دو لفظ ثقہ اور مامون استعمال فرمائے ہیں ۔ لہذا غیر مقلدین کے بیان کردہ قاعدہ ترجیح کے موافق بھی یزید کی روایت راجح ہے ۔
اسی طرح غیر مقلدین کی اس روایت کو مرجوح قرار دینے کی یہ دلیل بھی باطل ہے کہ گیارہ رکعات کے راوی محمد بن یوسف حضرت سائب رضی اللہ عنہ کے قریبی رشتہ دار ہیں کیونکہ حضرت سائب رضی اللہ عنہ ان کے نانا یا ماموں یا چچا تھے ۔ لہذا ان کی روایت یزید بن خصیفہ ( جو حضرت سائب رضی اللہ عنہ کے رشتہ دار نہیں ہیں ) کی روایت پر راجح ہوگی ۔ ( انارۃ المصابیح ص 40 )
لیکن یہ بھی غیر مقلدین کا نرا وہم ہے کیونکہ یزید بن خصیفہ بھی حضرت سائب رضی اللہ عنہ کے رشتہ دار یعنی بھانجے تھے ۔ چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے حجرت سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں ان سے روایت کرنے والے رایوں کو شمار کرتے ہوئے جب یزید بن خصیفہ کو شمار کیا تو فرمایا ۔ وابن اختہ یزید بن عبد اللہ بن خصیفہ و جماعۃ ۔ ( تہذیب التہذیب 3/450 )
یعنی حضرت سائب رضی اللہ عنہ سے ان کے بھانجے یزید بن خصیفہ نے بھی روایت کی ہے ۔ جب کہ علامہ ابن عبد البر ؒ کی رائے ہے کہ یہ حضرت سائب رضی اللہ عنہ کے بھائی کے بیٹے یعنی بھتیجے ہیں ۔ جیسا کہ ان کا حوالہ گزر چکا ہے ۔ لہذا غیر مقلدین کی یہ وجہ ترجیح بھی باطل ہوگئی اور غیر مقلدین کے اس صحیح روایت پر تمام اعتراضات ھباء منثورا ہوگئے
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں