کیا غیرمقلدین نے اپنے اختلافات اللہ اور رسول اللہﷺ کی طرف لوٹائے ہیں؟
ٰٓ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا
ٰٓ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا
اے ایمان والو! حکم مانو اللہ کا، اور حکم مانو رسول اللہ ﷺ کا، اور اولی الامر (مجتہد حاکم )کا جو تم میں سے ہوں، پھر
اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو رجوع کرو طرف اللہ کے اور رسول ﷺکے اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت
کے دن پر یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام۔(سورۃ النساء ۵۹)
اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو رجوع کرو طرف اللہ کے اور رسول ﷺکے اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت
کے دن پر یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام۔(سورۃ النساء ۵۹)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ کی اطاعت کرنا بھی اللہ کا حکم ہے، رسول اللہﷺ کی اطاعت کرنا بھی اللہ کا حکم ہے اور اولی الامر کی اطاعت کرنا بھی اللہ کا حکم ہے، اور اگر دو بندوں میں اختلاف ہو جائے ایک کہے کہ یہ مسئلہ یوں ہے دوسرا کہے کہ یوں نہیں یوں ہے تو پھر حاکم ا للہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرکے اس کا فیصلہ کرے۔ اور جو وہ
فیصلہ کرے تو مومنین کو چاہے کہ وہ اسے تسلیم کریں۔
فیصلہ کرے تو مومنین کو چاہے کہ وہ اسے تسلیم کریں۔
حضرت جابر بن عبداللہ اس آیت (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں ہیں کہ اولی الامر سے مراد أُولِي الْفِقْهِ وَالْخَيْر فقہ والے ہیں یعنی کہ فقہاء کرام ۔ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ (مستدرک علي الصحیحین جلد۱ص۲۱۱:صحیح)
اور صحابی کی تفسیر موفوع کہلاتی ہے جو کہ ہر حال میں حجت ہوتی ہے۔
اور صحابی کی تفسیر موفوع کہلاتی ہے جو کہ ہر حال میں حجت ہوتی ہے۔
جلال الدین سیوطیؒ نے الاتقان میں بیان کیا ہے:
”حدیث کے بعد تفسیر میں قولِ صحابی کا درجہ ہے کیونکہ صحابی کی تفسیر ان کے نزدیک بمنزلہ مرفوع کے ہے جیسا کہ امام حاکمؒ نے مستدرک میں کہا ہے ۔ اور ابوالخطاب حنبلی کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ تفسیر صحابی کی طرف رجوع نہ کیا جائے جب ہم یہ کہیں کہ قول صحابی حجت نہیں مگر صحیح بات اس کا حجت ہونا ہے کیونکہ تفسیر صحابی روایت کی قسم سے ہے نہ کہ رائے کی قسم سے ۔ میں (صاحب اتقان)
وہی کہتا ہوں جو امام حاکم ؒنے کہا ہے کہ تفسیر صحابی مرفوع ہے“ ۔( الإتقان ج2 ص 505 ،506)
”حدیث کے بعد تفسیر میں قولِ صحابی کا درجہ ہے کیونکہ صحابی کی تفسیر ان کے نزدیک بمنزلہ مرفوع کے ہے جیسا کہ امام حاکمؒ نے مستدرک میں کہا ہے ۔ اور ابوالخطاب حنبلی کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ تفسیر صحابی کی طرف رجوع نہ کیا جائے جب ہم یہ کہیں کہ قول صحابی حجت نہیں مگر صحیح بات اس کا حجت ہونا ہے کیونکہ تفسیر صحابی روایت کی قسم سے ہے نہ کہ رائے کی قسم سے ۔ میں (صاحب اتقان)
وہی کہتا ہوں جو امام حاکم ؒنے کہا ہے کہ تفسیر صحابی مرفوع ہے“ ۔( الإتقان ج2 ص 505 ،506)
کیا لڑائی جھگڑے ، تنازعے ،یا کسی مسئلہ کی تحقیق کی صورت میں اولی الامر کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے؟
وَ اِذَا جَآءَہُمۡ اَمۡرٌ مِّنَ الۡاَمۡنِ اَوِ الۡخَوۡفِ اَذَاعُوۡا بِہٖ ؕ وَ لَوۡ رَدُّوۡہُ اِلَی الرَّسُوۡلِ وَ اِلٰۤی اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ لَعَلِمَہُ الَّذِیۡنَ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ مِنۡہُمۡ
اور جب ان کے پاس پہنچتی ہے کوئی خبر امن کی یا ڈر کی تو اسکو مشہور کر دیتے ہیں اور اگر اسکو پہنچا دیتے رسول تک اور اپنے حکموں تک تو تحقیق کرتے اس کو جو ان میں تحقیق کرنے والے ہیں۔
اور جب ان کے پاس پہنچتی ہے کوئی خبر امن کی یا ڈر کی تو اسکو مشہور کر دیتے ہیں اور اگر اسکو پہنچا دیتے رسول تک اور اپنے حکموں تک تو تحقیق کرتے اس کو جو ان میں تحقیق کرنے والے ہیں۔
ویسے اولی الی الامر کا لفظی ترجمہ حاکم ہوتا ہے اللہ تعالٰی مجتہد کو (اہل استنباط) کو حاکم قرار دے رہے ہیں۔ ائمہ مجتہدین ہمارے حاکم ہیں، جنہوں نے اجتہادات (استنباط )کیئے ہیں اور اہل علم فقہاء کرامؒ نے انہی کو اپنا امام تسلیم کرکے انکے اجتہادات کو اپنایا ہے اور مدون و مرتب کیا ہے اور اسی کو اگے چلایا ہے جو کہ سمٹ کر چار میں رہ گئے ہیں۔ ہمارے مجتہد حاکم امام اعظم ابو حنیفہؒ ہیں جن کا مذہب ہم تک متواتر پہنچا ہے، اور جن جن علاقوں میں دوسرےاہل سنت ائمہ کے مذاہب پہنچے تو وہاں کے اہلسنت انہی کے پابند ہیں بفضلہ تعالٰی۔
اب غیرمقلدین حضرات یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے یہ فرمایا ہے کہ جب غیر اولی الامر کا اولی الامر کے ساتھ اختلاف ہو
تو غیراولی الامر ، اولی الامر کو چھوڑ دے حالانکہ یہ بات صحیح نہیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالٰی غیر اولی
الامر غیرمجتہد کو اس بات کی اجازت دیں کہ وہ اولی الامر سے اختلاف رکھے۔
تو غیراولی الامر ، اولی الامر کو چھوڑ دے حالانکہ یہ بات صحیح نہیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالٰی غیر اولی
الامر غیرمجتہد کو اس بات کی اجازت دیں کہ وہ اولی الامر سے اختلاف رکھے۔
آپﷺ نے بھی اولی الامر( جو کہ اجتہاد کا اہل ہے) کے ساتھ جھگڑا کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ(مسلم ج3 حدیث :274)
اور جھگڑا پیدا ہو بھی کیوں کر جبکہ نبیﷺ کی واضح حدیث موجود ہے کہ اگر :”جب حاکم کسی بات کا فیصلہ کرے اور اس میں اجتہاد سے کام لے اور صحیح ہو تو اس کے لئے دو اجر ہیں اور اگر حکم دے اور اس میں اجتہاد سے کام لے اور
غلط ہو تو اس کو ایک اجر ملے گا“۔(صحیح بخاری ج۳ح؛ ۲۲۵۲)
اور جھگڑا پیدا ہو بھی کیوں کر جبکہ نبیﷺ کی واضح حدیث موجود ہے کہ اگر :”جب حاکم کسی بات کا فیصلہ کرے اور اس میں اجتہاد سے کام لے اور صحیح ہو تو اس کے لئے دو اجر ہیں اور اگر حکم دے اور اس میں اجتہاد سے کام لے اور
غلط ہو تو اس کو ایک اجر ملے گا“۔(صحیح بخاری ج۳ح؛ ۲۲۵۲)
ہاں پہلے حاکم مجتہد سے اختلاف رکھنے والا اگر اس جیسا مجتہد ہو تو اس کو تو اس سے اجتہادی اختلاف رکھنے سے کسی
نے نہیں روکا اور اس صورت میں پہلے مجتہد کی بھی پیروی کی جاسکتی ہے جبکہ دوسرے مجتہد نے صرف اس جیسا
اجتہاد سے ہی کام لیا ہے اور پہلے والے کو باطل نہیں قرار دیا۔
نے نہیں روکا اور اس صورت میں پہلے مجتہد کی بھی پیروی کی جاسکتی ہے جبکہ دوسرے مجتہد نے صرف اس جیسا
اجتہاد سے ہی کام لیا ہے اور پہلے والے کو باطل نہیں قرار دیا۔
فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث حضرات مذہب اربعہ میں موجود اجتہادی اختلافات کو چھوڑ کر اللہ اور رسول اللہﷺ کی طرف لوٹانے کا دعوی کرتے ہیں اور ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس طرح چاروں مذہب کے اختلافات ختم ہو جائیں گے اور ایک ہی مذہب رہ جائے گا۔ جبکہ یہ بات غلط ہے پہلے اگر چار مذہب تھے تو ائمہ اربعہ کے مذاہب کو چھوڑنے کے بعد چار سے بھی زیادہ مذہب بن جائیں گے اور مزید اختلافات آجائیں گے جن میں اصولی بھی ہوں گے۔
اب ذرہ ہم چند مثالیں غیرمقلدین کے گھر سے دیں گے کہ انہیں نے کیا لوٹایا ہے اللہ اور رسول کی طرف
اب ذرہ ہم چند مثالیں غیرمقلدین کے گھر سے دیں گے کہ انہیں نے کیا لوٹایا ہے اللہ اور رسول کی طرف
۱۔منی پاک یا نا پاک
مولوی ابو الحسن صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں”منی پاک ہے۔۔۔۔۔ اور کھانے کے متعلق دو قول ہیں“۔ (فقہ محمدیہ صفحہ 41)
حافظ زبیر علی زئی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں ”ہمارے نزدیک راجح یہ ہے کہ منی ناپاک ، پلید اور نجس ہے“۔(فتاویٰ علمیہ صفحہ 210)
غیرمقلدین کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی صاحب اپنے امام شوکانی صاحب غیرمقلد کے حوالے سے لکھتے ہیں ”یعنی صواب یہ ہے کہ منی نجس ہے“۔ اور اگے حاشیہ میں لکھتے ہیں”صحیح یہ ہے کہ منی نا پاک ہے“۔ (فتاویٰ نذیریہ
جلد1 ص335)
مولوی ابو الحسن صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں”منی پاک ہے۔۔۔۔۔ اور کھانے کے متعلق دو قول ہیں“۔ (فقہ محمدیہ صفحہ 41)
حافظ زبیر علی زئی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں ”ہمارے نزدیک راجح یہ ہے کہ منی ناپاک ، پلید اور نجس ہے“۔(فتاویٰ علمیہ صفحہ 210)
غیرمقلدین کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی صاحب اپنے امام شوکانی صاحب غیرمقلد کے حوالے سے لکھتے ہیں ”یعنی صواب یہ ہے کہ منی نجس ہے“۔ اور اگے حاشیہ میں لکھتے ہیں”صحیح یہ ہے کہ منی نا پاک ہے“۔ (فتاویٰ نذیریہ
جلد1 ص335)
۲۔ رکوع میں ملنے سے رکعات ہو گی یا نہیں
حافظ زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں ”جو شخص رکوع میں مل جائے اور وہ فاتحہ نہ پڑھ سکےتو اس کی وہ رکعات نہیں ہو گی“۔ (فتاویٰ علمیہ صفحہ 373)
جبکہ مفتی عبد الستار صاحب غیر مقلد رکوع میں ملنے والے مقتدی کو رکعت پانے والا شمار کرتے ہیں ۔ (فتاویٰ ستاریہ ج1 ص52)
حافظ زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں ”جو شخص رکوع میں مل جائے اور وہ فاتحہ نہ پڑھ سکےتو اس کی وہ رکعات نہیں ہو گی“۔ (فتاویٰ علمیہ صفحہ 373)
جبکہ مفتی عبد الستار صاحب غیر مقلد رکوع میں ملنے والے مقتدی کو رکعت پانے والا شمار کرتے ہیں ۔ (فتاویٰ ستاریہ ج1 ص52)
۳۔ ننگے سر نماز کا حکم
آج کل ہر ایک جاہل غیرمقلد نہ صرف ننگے سر نماز کا قائل ہے بلکہ اس طرح نماز پڑھنے کو سنت بھی سمجھتا ہے۔
جبکہ ان کے بڑے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں ” ننگے سر نماز کو سنت کہنا بلکل غلط ہے یہ فعل سنت سے ثابت نہیں“۔(فتاویٰ ثنائیہ ج1 ص 523)
آج کل ہر ایک جاہل غیرمقلد نہ صرف ننگے سر نماز کا قائل ہے بلکہ اس طرح نماز پڑھنے کو سنت بھی سمجھتا ہے۔
جبکہ ان کے بڑے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں ” ننگے سر نماز کو سنت کہنا بلکل غلط ہے یہ فعل سنت سے ثابت نہیں“۔(فتاویٰ ثنائیہ ج1 ص 523)
۴۔ عصر کے بعد نفل پڑھنے کا مسئلہ
غیرمقلدین کے پروفیسر عبداللہ بہاولپوری صاحب لکھتے ہیں ”حضور ﷺ سے جو عصر کے بعد نفل پڑھنا ثابت ہے وہ آپ کا خاصہ ہے ‘ وہ ہمارے لیے نہیں“۔(رسائل بہاولپوری ص134)
جبکہ غیرمقلدین کے حافظ عبدالمنان نور پوری صاحب عصر کے بعد نفل پڑھنے پر پورا زور دے رہے ہیں۔ (مقالات نور
پوری صفحہ 311)
غیرمقلدین کے پروفیسر عبداللہ بہاولپوری صاحب لکھتے ہیں ”حضور ﷺ سے جو عصر کے بعد نفل پڑھنا ثابت ہے وہ آپ کا خاصہ ہے ‘ وہ ہمارے لیے نہیں“۔(رسائل بہاولپوری ص134)
جبکہ غیرمقلدین کے حافظ عبدالمنان نور پوری صاحب عصر کے بعد نفل پڑھنے پر پورا زور دے رہے ہیں۔ (مقالات نور
پوری صفحہ 311)
۵۔ آذان عثمانی بدعت یا سنت
غیرمقلدین کے خطیب الہند مولوی جونا گھڑی صاحب لکھتے ہیں ”(یہ آذان) صریح بدعت ہے کسی طرح جائز نہیں“(العیاذ باللہ)۔(فتاویٰ علمائے حدیث ج2 ص 106)
غیرمقلدین کے شیخ السلام مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں ” یہ آذان سنت خلفاء ہے اس کو گمراہی اور ضلالت کہنا بالکل غلو ہے۔ جمہور صحابہ پر حملے کرنا اورر بڑی جرأت ہے“۔ (فتاویٰ ثنائیہ ج1 ص435)
غیرمقلدین کے خطیب الہند مولوی جونا گھڑی صاحب لکھتے ہیں ”(یہ آذان) صریح بدعت ہے کسی طرح جائز نہیں“(العیاذ باللہ)۔(فتاویٰ علمائے حدیث ج2 ص 106)
غیرمقلدین کے شیخ السلام مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں ” یہ آذان سنت خلفاء ہے اس کو گمراہی اور ضلالت کہنا بالکل غلو ہے۔ جمہور صحابہ پر حملے کرنا اورر بڑی جرأت ہے“۔ (فتاویٰ ثنائیہ ج1 ص435)
۶۔ جرابوں پر مسح
غیرمقلدین کے ایک شیخ ابو محمد حافظ عبدالستار الحماد صاحب لکھتے ہیں ”جرابوں پر مسح جائز ہے“۔ (فتاویٰ اصحاب الحدیث ج1 ص 66)
غیرمقلدین کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی صاحب لکھتے ہیں”جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے“۔(فتاویٰ نذیریہ
(ج1 ص 327
غیرمقلدین کے ایک شیخ ابو محمد حافظ عبدالستار الحماد صاحب لکھتے ہیں ”جرابوں پر مسح جائز ہے“۔ (فتاویٰ اصحاب الحدیث ج1 ص 66)
غیرمقلدین کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی صاحب لکھتے ہیں”جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے“۔(فتاویٰ نذیریہ
(ج1 ص 327
7۔ قربانی تین دن یا چار دن
غیرمقلدین کے امام شوکانی صاحب لکھتے ہیں”چار دن قربانی والا موقف راجح ہے“ (نیل الاوطار جلد 5 صفحہ 149)
غیرمقلدین کے محدث العصر حافظ زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں ”قول راجح یہ ہے کہ قربانی کے صرف 3 دن ہیں“۔ (علمی مقالات صفحہ 219)
(تبصرہ : اگر ان جہلا سے ہی کسی مسئلہ کو راجح مرجوع کروانا ہے تو بہتر نہیں ائمہ اربعہؒ میں سے ہی کسی ایک کی تقلید کا پابند رہا جائے)
غیرمقلدین کے ایک مولوی ڈاکٹر بہاوالدین صاحب نے ایک بات لکھی ہے آج غیرمقلد پر پوری فٹ آتی ہے ” ہاں بعض عوام کالانعام گروہ اہل حدیث میں ایسے بھی ہیں جو اہل حدیث کہلانے کے مستحق نہیں۔ ان کو لامذہب بد مذہب ضال منصل جو کچھ کہو زیبا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ خود کتاب و سنت کا علم رکھتے ہیں نہ اپنے گروہ کے اہل علم کا اتباع کرتے ہیں۔
(تاریخ اہل حدیث ص164)
غیرمقلدین کے امام شوکانی صاحب لکھتے ہیں”چار دن قربانی والا موقف راجح ہے“ (نیل الاوطار جلد 5 صفحہ 149)
غیرمقلدین کے محدث العصر حافظ زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں ”قول راجح یہ ہے کہ قربانی کے صرف 3 دن ہیں“۔ (علمی مقالات صفحہ 219)
(تبصرہ : اگر ان جہلا سے ہی کسی مسئلہ کو راجح مرجوع کروانا ہے تو بہتر نہیں ائمہ اربعہؒ میں سے ہی کسی ایک کی تقلید کا پابند رہا جائے)
غیرمقلدین کے ایک مولوی ڈاکٹر بہاوالدین صاحب نے ایک بات لکھی ہے آج غیرمقلد پر پوری فٹ آتی ہے ” ہاں بعض عوام کالانعام گروہ اہل حدیث میں ایسے بھی ہیں جو اہل حدیث کہلانے کے مستحق نہیں۔ ان کو لامذہب بد مذہب ضال منصل جو کچھ کہو زیبا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ خود کتاب و سنت کا علم رکھتے ہیں نہ اپنے گروہ کے اہل علم کا اتباع کرتے ہیں۔
(تاریخ اہل حدیث ص164)
ان کے عقائد میں بھی آپس میں اختلافات ہیں
یہ وہ اختلافات ہیں جن میں ایک فریق کا گمراہی پر ہونا لازم آتا ہے۔
یہ وہ اختلافات ہیں جن میں ایک فریق کا گمراہی پر ہونا لازم آتا ہے۔
۱۔ اللہ کہاں ہے۔
آج کل غیرمقلدین کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی صرف عرش پر ہے اور کہیں بھی نہیں۔
جبکہ ان کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں ” اللہ بذات خود اور بعلم خود ہر چیز پر ہر کام پر حاضر ہے“(تفسیر ثنائیہ ص347)
غیرمقلدین کے مجدد العصر نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں ”ہمارے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ استواء علی العرش اور اللہ کا آسمان پر ہونا اور مخلوق سے بائن ہونا اور اس کا قر اور معیت اور جو بھی صفات آئی ہیں کیفیت بتانے اور علم و قدرت کے ساتھ تاویل کرنے کے بغیر ظاہر پر جاری ہیں“۔(کتاب الجوائز والصلات ص262)
جبکہ ان کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں ” اللہ بذات خود اور بعلم خود ہر چیز پر ہر کام پر حاضر ہے“(تفسیر ثنائیہ ص347)
غیرمقلدین کے مجدد العصر نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں ”ہمارے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ استواء علی العرش اور اللہ کا آسمان پر ہونا اور مخلوق سے بائن ہونا اور اس کا قر اور معیت اور جو بھی صفات آئی ہیں کیفیت بتانے اور علم و قدرت کے ساتھ تاویل کرنے کے بغیر ظاہر پر جاری ہیں“۔(کتاب الجوائز والصلات ص262)
جبکہ آج کل ہر جاہل غیرمقلد اس کی علم کے ساتھ تاویل صرف حقیقت کا انکار کرنے کیلئے کرتا ہے۔ وہ اللہ کو ذات کے ساتھ قریب نہیں مانتا لیکن اللہ قریب ہے کو علم کے ساتھ تاویل کرکے جان چھڑانے کی کوشش کرتا ہے۔
غیرمقلدین کے شیخ الکل میاں نذیر حسین دہلوی صاحب ایک سوال ” قریب و معین و احاطہ جو صفات باری تعالٰی ہیں آیا یہ بالذات ہیں یا با العلم ہیں“ کے جواب میں لکھتے ہیں ”قریب و معین و غیرہ صفات میں بہت اختلاف ہے بعض با الذات مراد سے تاویلات کرتے ہیں اور بعض بالعلم لیتے ہیں لیکن تحقیق مذہب جمہور کا یہ ہے کہ جملہ صفات باری کا ایمان بغیر سوال کیف
اور بلا تشبیہ لانا چاہئے یہ تحقیق مطابق مذہب اہل سنت ہے“۔(فتاویٰ نذیریہ ج1 صفحہ 4)
اگے لکھتے ہیں ” ہر جگہ حاضر و ناظر ہونا اور ہر چیز کی ہر وقت خبر رکھنا خاص ذات وحدہ لا شریک لہ باری تعالیٰ کے
واسطہ ہے۔ کسی دوسرے کے واسطے اس صفت کو لگانا یا سمجھنا کھلا ہوا شرک ہے۔ (فتاویٰ نذیریہ ج1 ص7)
تبصرہ : جب بریلوی حضرات نبیﷺ کو بذات خود ہر جگہ حاضر مانتے ہیں تو غیرمقلدین انہیں مشرک کیوں کہتے ہیں؟
غیرمقلدین کے شیخ الکل میاں نذیر حسین دہلوی صاحب ایک سوال ” قریب و معین و احاطہ جو صفات باری تعالٰی ہیں آیا یہ بالذات ہیں یا با العلم ہیں“ کے جواب میں لکھتے ہیں ”قریب و معین و غیرہ صفات میں بہت اختلاف ہے بعض با الذات مراد سے تاویلات کرتے ہیں اور بعض بالعلم لیتے ہیں لیکن تحقیق مذہب جمہور کا یہ ہے کہ جملہ صفات باری کا ایمان بغیر سوال کیف
اور بلا تشبیہ لانا چاہئے یہ تحقیق مطابق مذہب اہل سنت ہے“۔(فتاویٰ نذیریہ ج1 صفحہ 4)
اگے لکھتے ہیں ” ہر جگہ حاضر و ناظر ہونا اور ہر چیز کی ہر وقت خبر رکھنا خاص ذات وحدہ لا شریک لہ باری تعالیٰ کے
واسطہ ہے۔ کسی دوسرے کے واسطے اس صفت کو لگانا یا سمجھنا کھلا ہوا شرک ہے۔ (فتاویٰ نذیریہ ج1 ص7)
تبصرہ : جب بریلوی حضرات نبیﷺ کو بذات خود ہر جگہ حاضر مانتے ہیں تو غیرمقلدین انہیں مشرک کیوں کہتے ہیں؟
جبکہ غیرمقلدین کے نزدیک اللہ تعالٰی ہر جگہ حاضر ناظر نہیں تو پھر رسول اللہﷺ کو یا کسی اور کو ہر جگہ حاضر
ناظر ماننے سے اللہ کے ساتھ شرک کیسے ہو سکتا ہے۔ اگر اللہ رب العزت ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں اور بے شک ہیں تو پھر اس کے بعد اگر کوئی بندہ کسی اور کو ہر جگہ حاضر ناظر سمجھے گا تو اس طرح سے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا ہو گا جبکہ آج کل کے غیرمقلدین اللہ تعالیٰ کو ہر جگہ حاضر ناظر ماننے کا ہی انکار کرتے ہیں معاذ اللہ۔
ناظر ماننے سے اللہ کے ساتھ شرک کیسے ہو سکتا ہے۔ اگر اللہ رب العزت ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں اور بے شک ہیں تو پھر اس کے بعد اگر کوئی بندہ کسی اور کو ہر جگہ حاضر ناظر سمجھے گا تو اس طرح سے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا ہو گا جبکہ آج کل کے غیرمقلدین اللہ تعالیٰ کو ہر جگہ حاضر ناظر ماننے کا ہی انکار کرتے ہیں معاذ اللہ۔
۲۔ عقیدہ حیات النبیﷺ
آج کل بعض غیرمقلدین حیات النبیﷺ کا انکار کرتے ہیں اللہ کے نبیﷺ اور بقیہ تمام لوگوں کے صرف روح کے عذاب و ثواب کے قائل ہیں اور جسم کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ جسم کو نہ عذاب ہو تا ہے نہ ثواب ہوتا ہے عذاب و ثواب صرف روح کو ہوتا ہے۔ جبکہ
غیرمقلدین کے ایک بزرگ اور فتاویٰ ستاریہ کے مصنف لکھتے ہیں ”جو شخص آپﷺ کی قبر پر جا کر سلا م کہتا ہے اس کا سلام آپ خود سنتے ہیں یہاں سے نہیں سنتے کیونکہ فرشتے پہنچانے کیلئے اللہ نے مقرر فرمائے ہیں“۔ (فتاویٰ ستاریہ ج4 ص91)
قبر کے قریب آپﷺ خود درود سنتے ہیں اور قبر سے دور اگر کوئی درود پڑے تو اسے فرشتے پہنچا دیتے ہیں اس مطلب صاف ظاہر ہے کہ یہی اس دنیا والی قبر میں موجود برزخی زندگی کا حامل جسم میں حیات بے شک موجود ہے جس کا شعور ہم نہیں رکھ سکتے۔
غیرمقلدین کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی صاحب بھی حیات النبیﷺ کے قائل تھے اور یہی بات وہ بھی
تحریر فرماتے ہیں(فتاویٰ نذیریہ ج1 ص7)
آج کل بعض غیرمقلدین حیات النبیﷺ کا انکار کرتے ہیں اللہ کے نبیﷺ اور بقیہ تمام لوگوں کے صرف روح کے عذاب و ثواب کے قائل ہیں اور جسم کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ جسم کو نہ عذاب ہو تا ہے نہ ثواب ہوتا ہے عذاب و ثواب صرف روح کو ہوتا ہے۔ جبکہ
غیرمقلدین کے ایک بزرگ اور فتاویٰ ستاریہ کے مصنف لکھتے ہیں ”جو شخص آپﷺ کی قبر پر جا کر سلا م کہتا ہے اس کا سلام آپ خود سنتے ہیں یہاں سے نہیں سنتے کیونکہ فرشتے پہنچانے کیلئے اللہ نے مقرر فرمائے ہیں“۔ (فتاویٰ ستاریہ ج4 ص91)
قبر کے قریب آپﷺ خود درود سنتے ہیں اور قبر سے دور اگر کوئی درود پڑے تو اسے فرشتے پہنچا دیتے ہیں اس مطلب صاف ظاہر ہے کہ یہی اس دنیا والی قبر میں موجود برزخی زندگی کا حامل جسم میں حیات بے شک موجود ہے جس کا شعور ہم نہیں رکھ سکتے۔
غیرمقلدین کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی صاحب بھی حیات النبیﷺ کے قائل تھے اور یہی بات وہ بھی
تحریر فرماتے ہیں(فتاویٰ نذیریہ ج1 ص7)
یاد رہے یہ عقائد کا مسئلہ ہے اس میں اجتہادات کرکے اختلاف رکھنے کی گنجائش نہیں ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک حدیث
کے صحیح یا ضعیف ہونے پر عقائد تبدیل ہو جائے۔ بعد والا اگر کہے کہ میں نے تحقیق کرکے ان کے عقائد کی دلیل کو کمزور ثابت کرکے عقیدہ بدل لیا ہے تو یہ اس کی اپنی گمراہی ہے ۔عقائد شروع اسلام سے ایک ہی چلے آرہے ہیں۔ اس لئے غیرمقلدین انکی پیش کردہ اس روایت پر جرح کے کے جان نہیں چھڑا سکتے انہیں ماننا پڑے گا کہ یا تو وہ خود گمراہ ہیں یا پھر ان کے یہ بڑے گمراہ تھے۔
کے صحیح یا ضعیف ہونے پر عقائد تبدیل ہو جائے۔ بعد والا اگر کہے کہ میں نے تحقیق کرکے ان کے عقائد کی دلیل کو کمزور ثابت کرکے عقیدہ بدل لیا ہے تو یہ اس کی اپنی گمراہی ہے ۔عقائد شروع اسلام سے ایک ہی چلے آرہے ہیں۔ اس لئے غیرمقلدین انکی پیش کردہ اس روایت پر جرح کے کے جان نہیں چھڑا سکتے انہیں ماننا پڑے گا کہ یا تو وہ خود گمراہ ہیں یا پھر ان کے یہ بڑے گمراہ تھے۔
۳۔ سماع موتی
یہ مسئلہ اتنا اہم اور بحث طلب کبھی نہیں رہا آج کل غیرمقلدین نے اسے کفر اسلام کاپیمانہ بنا رکھا ہے، صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ ”دفنانے کے بعد مت جوتیوں کی آواز سن رہی ہوتی ہے“۔(صحیح بخاری ج ۱ص۱۷۸) بے شک آپﷺ نے سچ فرمایا اس سے مردوں کا سننا ثابت ہو گیا۔ لیکن مردہ سن کر ہماری بات کا جواب نہیں دے سکتا نہ اس کو کچھ سنانے کا اسے کچھ فائدہ ہے نہ ہمیں کوئی فائدہ ہے اسلئے اس موقع پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مردہ سنتا نہیں سن کر جواب نہ دینے سے مردوں کا نہ سننا ثابت نہیں ہوتاکرامن کاتبین بھی ہمارے کندھوں پر بیٹھے ہیں ہم انہیں نہیں سن سکتے وہ ہمیں سن سکتے ہیں دیکھ سکتے ہیں اب کوئی کہے انہیں کچھ سنانا ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ سنتے نہیں۔
سماع موتی کے قائل کے بارے میں آج کل کچھ جاہل غیرمقلدین شرک و کفر کا فتویٰ لگتے ہیں
جبکہ ان کے ایک بزرگ مولانا عبدالرحمٰن کیلانی صاحب لکھتے ہیں ” حافظ ابن تیمیہؒ اور حافظ ابن قیمؒ دونوں بزرگ نہ صرف سماع موتی کے قائل تھے بلکہ اسی طبقات صوفیہ سے تعلق رکھتے تھے“۔(روح عذاب قبر اور سماع موتیٰ ص 55)
گویا اگر سماع موتیٰ کا قائل مشرک ہے تو ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ دونوں مشرک ہوئے۔ العیاذ باللہ۔ جاہل غیرمقلدین کو بے تکے فتوے دینے سے پہلے تھوڑا سوچ لینا چاہئے۔
غیرمقلدین کے امام شوکانی صاحب لکھتے ہیں ” ہر مردہ سنتا ہے سماع ہر مردے کیلئے ہے“۔ (نیل الاوطار ج5 ص264)
لطیفہ
سماع موتی کے متعلق غیرمقلدین کے کچھ پڑھے لکھے جاہلوں کے نزدیک ایک عجیب و غریب فلسفہ پایا جاتا ہے۔ غیرمقلدین کے ایک پروفیسر طالب الرحمٰن صاحب نے تو ایک ہی صفحے پر بڑی ہی عجیب بات لکھ دی چنانچہ فرماتے ہیں
”مردے نہیں سنتے وہ مردہ ہی کیا جو سنے“۔ (آیئے عقیدہ سیکھئے صفحہ 177)
”مردہ جوتیوں کی آواز سنتا ہے“۔ (آیئے عقیدہ سیکھئے صفغہ 177)
تبصرہ : پروفیسر صاحب کیا یہ اب مردہ نہیں رہا جو سن رہا ہے؟
یہ مسئلہ اتنا اہم اور بحث طلب کبھی نہیں رہا آج کل غیرمقلدین نے اسے کفر اسلام کاپیمانہ بنا رکھا ہے، صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ ”دفنانے کے بعد مت جوتیوں کی آواز سن رہی ہوتی ہے“۔(صحیح بخاری ج ۱ص۱۷۸) بے شک آپﷺ نے سچ فرمایا اس سے مردوں کا سننا ثابت ہو گیا۔ لیکن مردہ سن کر ہماری بات کا جواب نہیں دے سکتا نہ اس کو کچھ سنانے کا اسے کچھ فائدہ ہے نہ ہمیں کوئی فائدہ ہے اسلئے اس موقع پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مردہ سنتا نہیں سن کر جواب نہ دینے سے مردوں کا نہ سننا ثابت نہیں ہوتاکرامن کاتبین بھی ہمارے کندھوں پر بیٹھے ہیں ہم انہیں نہیں سن سکتے وہ ہمیں سن سکتے ہیں دیکھ سکتے ہیں اب کوئی کہے انہیں کچھ سنانا ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ سنتے نہیں۔
سماع موتی کے قائل کے بارے میں آج کل کچھ جاہل غیرمقلدین شرک و کفر کا فتویٰ لگتے ہیں
جبکہ ان کے ایک بزرگ مولانا عبدالرحمٰن کیلانی صاحب لکھتے ہیں ” حافظ ابن تیمیہؒ اور حافظ ابن قیمؒ دونوں بزرگ نہ صرف سماع موتی کے قائل تھے بلکہ اسی طبقات صوفیہ سے تعلق رکھتے تھے“۔(روح عذاب قبر اور سماع موتیٰ ص 55)
گویا اگر سماع موتیٰ کا قائل مشرک ہے تو ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ دونوں مشرک ہوئے۔ العیاذ باللہ۔ جاہل غیرمقلدین کو بے تکے فتوے دینے سے پہلے تھوڑا سوچ لینا چاہئے۔
غیرمقلدین کے امام شوکانی صاحب لکھتے ہیں ” ہر مردہ سنتا ہے سماع ہر مردے کیلئے ہے“۔ (نیل الاوطار ج5 ص264)
لطیفہ
سماع موتی کے متعلق غیرمقلدین کے کچھ پڑھے لکھے جاہلوں کے نزدیک ایک عجیب و غریب فلسفہ پایا جاتا ہے۔ غیرمقلدین کے ایک پروفیسر طالب الرحمٰن صاحب نے تو ایک ہی صفحے پر بڑی ہی عجیب بات لکھ دی چنانچہ فرماتے ہیں
”مردے نہیں سنتے وہ مردہ ہی کیا جو سنے“۔ (آیئے عقیدہ سیکھئے صفحہ 177)
”مردہ جوتیوں کی آواز سنتا ہے“۔ (آیئے عقیدہ سیکھئے صفغہ 177)
تبصرہ : پروفیسر صاحب کیا یہ اب مردہ نہیں رہا جو سن رہا ہے؟
۴۔ صرف روح کو عذاب و ثواب ہوتا ہے یا روح اور جسم دونوں کو
آج کل کئی غیرمقلدین حضرات خاص کر حیات النبیﷺ کے منکر صرف روح کیلئے عذاب و ثواب کے قائل ہیں جسم کو عذاب و ثواب ہونے کا انکار کرتے ہیں۔ یہ ان کا ایک غلط عقیدہ ہے۔ اگر جسم کے ساتھ بھی عذاب و ثواب کا معاملہ مان لیا جائے تو حیات النبیﷺ کا عقیدہ ثابت ہو جائے گا کیونکہ اگر عام مردے کا جسم عذاب و ثواب کا ذائقہ چکھ سکتا ہے تو انبیاءؑ کو کیا اتنا بھی حق نہیں کہ ان کا جسم عذاب تو نہیں لیکن ثواب کا مزہ چکھ سکے اور اس قدر چکھ رہا ہے کہ قرآن نے
ان کو مردہ گمان کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔
آج کل کئی غیرمقلدین حضرات خاص کر حیات النبیﷺ کے منکر صرف روح کیلئے عذاب و ثواب کے قائل ہیں جسم کو عذاب و ثواب ہونے کا انکار کرتے ہیں۔ یہ ان کا ایک غلط عقیدہ ہے۔ اگر جسم کے ساتھ بھی عذاب و ثواب کا معاملہ مان لیا جائے تو حیات النبیﷺ کا عقیدہ ثابت ہو جائے گا کیونکہ اگر عام مردے کا جسم عذاب و ثواب کا ذائقہ چکھ سکتا ہے تو انبیاءؑ کو کیا اتنا بھی حق نہیں کہ ان کا جسم عذاب تو نہیں لیکن ثواب کا مزہ چکھ سکے اور اس قدر چکھ رہا ہے کہ قرآن نے
ان کو مردہ گمان کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔
غیرمقلد زبیر علی زئی کے استاد حافظ عبدلمنان نورپوری صاحب لکھتے ہیں
عذاب و ثواب جسم اور روح دونوں کو ہوتا ہے۔(قرآن و سنت کی روشنی میں احکام و مسائل جلد ۱صفحہ ۶۵)
عذاب و ثواب جسم اور روح دونوں کو ہوتا ہے۔(قرآن و سنت کی روشنی میں احکام و مسائل جلد ۱صفحہ ۶۵)
مولوی صاحب عام مردے کیلئے جسم اور روح دونوں کیلئے عذاب و ثواب مان رہے ہیں اب سوال یہ ہے کہ عام مردے کو
تو روح اور جسم دونوں کے ساتھ عذاب و ثواب مانا جارہا ہے اور شہداء اور انبیاء کومعاذ اللہ اتنی بھی سہولت حاصل نہیں کہ بغیر جسم کے ثواب مانا جارہا ہے۔ اگر جسم کو عذاب و ثواب ہو سکتا ہے تو انبیاء اور شہداء کے جسموں کو یقیناً عذاب نہیں ثواب ہی ہے جو کہ ان کے جسم محسوس کر سکتے ہیں اور یہی حیات الانبیاء اور حیات الشہداء ہے ، اب اللہ تعالٰی روح کے ساتھ یا جسم کے ساتھ جیسا بھی معاملہ کریں اس سے نہ جسم کی حیات کا انکار لازم آئے گا نہ ہی روح کی حیات کا
انکار لازم آسکتا ہے ، اللہ جو چاہے ان کے ساتھ معاملہ کریں ہم اسے اللہ ہی کی قدرت سمجھنا ہو گا۔
تو روح اور جسم دونوں کے ساتھ عذاب و ثواب مانا جارہا ہے اور شہداء اور انبیاء کومعاذ اللہ اتنی بھی سہولت حاصل نہیں کہ بغیر جسم کے ثواب مانا جارہا ہے۔ اگر جسم کو عذاب و ثواب ہو سکتا ہے تو انبیاء اور شہداء کے جسموں کو یقیناً عذاب نہیں ثواب ہی ہے جو کہ ان کے جسم محسوس کر سکتے ہیں اور یہی حیات الانبیاء اور حیات الشہداء ہے ، اب اللہ تعالٰی روح کے ساتھ یا جسم کے ساتھ جیسا بھی معاملہ کریں اس سے نہ جسم کی حیات کا انکار لازم آئے گا نہ ہی روح کی حیات کا
انکار لازم آسکتا ہے ، اللہ جو چاہے ان کے ساتھ معاملہ کریں ہم اسے اللہ ہی کی قدرت سمجھنا ہو گا۔
اور اگر ہمارا کوئی غیرمقلد دوست اس کے بعد بھی بھول کر یہ کہہ دے کہ میں جسم کیلئے عذاب و ثواب نہیں مانتا تو اس
کیلئے امام ابن تیمیہؒ کا قول نقل کر دیتے ہیں چناچہ فرماتے ہیں
کیلئے امام ابن تیمیہؒ کا قول نقل کر دیتے ہیں چناچہ فرماتے ہیں
”جو شخص یہ کہے کہ عذاب صرف روح کو ہوتا ہے جسم کو نہیں تو ایسا شخص بالاجماع کافر ہے“۔
(فتاوی ابن تیمیہ جلد 4 صفحہ 282)
(فتاوی ابن تیمیہ جلد 4 صفحہ 282)
یہ تمام باتیں کافی ہیں غیرمقلدین کا عمل بالحدیث اور صرف قرآن حدیث کے جھوٹے نعرے اور دعوے کی پول کھولنے
کیلئے۔ اور یہ لوگ ائمہ اربعہؒ کی تقلید سے نکال کر صرف اپنے جاہل مولویوں کی تحقیق کے پیچھے لگاتے ہیں اور خود بھی اسی پر چلتے ہیں۔ اگر ان جہلا سے ہی کسی مسئلہ کو راجح مرجوع کروانا ہے تو بہتر نہیں ائمہ اربعہؒ میں سے ہی
کسی ایک کی تقلید کا پابند رہا جائے۔
کیلئے۔ اور یہ لوگ ائمہ اربعہؒ کی تقلید سے نکال کر صرف اپنے جاہل مولویوں کی تحقیق کے پیچھے لگاتے ہیں اور خود بھی اسی پر چلتے ہیں۔ اگر ان جہلا سے ہی کسی مسئلہ کو راجح مرجوع کروانا ہے تو بہتر نہیں ائمہ اربعہؒ میں سے ہی
کسی ایک کی تقلید کا پابند رہا جائے۔
مورخ اسلام علامہ ابن خلدون ؒ(المتوفی 808 ھ)لکھتے ہیں:
جب مرتبہ اجتہاد تک پہنچنا رک گیا اور اس کا بھی خطرہ تھا کہ اجتہاد نا اہلوں اور ان لوگوں کے قبضہ میں
چلاجائےگا جن کی رائے اور دین پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا بڑے بڑے علماء نے اجتہاد سے عجز اور درماندگی کا اعلان کردیا اور لوگوں کو ان چاروں ائمہ کی تقلید پر لگادیا ہر شخص جس کی وہ تقلیدکرتاہے اس کے ساتھ رہے۔اور
لوگوں کو اس سے خبردار کیا کہ وہ ائمہ کی تقلید بدل بدل کر نہ کریں یہ تو دین سے کھیلنا ہوجائے گا اس کے سواکوئی صورت ہی نہیں کہ انہی ائمہ اربعہ کے مذاہب آگے نقل کیے جائیں۔
(مقدمہ ابن خلدون باب 6 فصل 7 ص 448 مصر)DIFAEAHNAF دفاع احناف
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں