کیا ائمہ اربعہ، پیغمبروں کے
درجہ کے برابر ہیں؟
س…کیا پیغمبروں کے درجے کے
برابر ہونے کے لئے کم سے کم امام (امام اعظم ابوحنیفہ، امام شافعی وغیرہ) کے برابر ہونا ضروری ہے؟
ج… امام اعظم ابوحنیفہ اور
امام شافعی تو
امتی ہیں، اور کوئی امتی کسی نبی کی خاک پا کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔
کیا کسی ایک فقہ کو ماننا ضروری
ہے؟
س… کیا اسلام میں کسی
ایک فقہ کو ماننا اور اس پر عمل کرنا لازمی ہے؟ یا اپنی عقل سے سوچ کر جس امام کی
جو بات زیادہ مناسب لگے اس پر عمل کرنا جائز ہے؟
ج… ایک فقہ کی پابندی واجب ہے، ورنہ آدمی خودرائی و خودغرضی کا
شکار ہوسکتا ہے۔
کسی ایک امام کی تقلید کیوں؟
س… جب چاروں امام،
امام ابوحنیفہ،
امام شافعی،
امام مالک اور
امام احمد بن حنبل برحق ہیں تو پھر ہمیں کسی ایک کی تقلید
کرنا کیوں ضروری ہے؟ ان چاروں سے پہلے لوگ کن کی تقلید کرتے تھے؟
ج… جب چاروں امام برحق ہیں تو کسی ایک کی تقلید حق ہی کی تقلید
ہوگی، چونکہ بیک وقت سب کی تقلید ممکن نہیں لامحالہ ایک کی لازمی ہوگی۔
دوم:…تقلید کی ضرورت اس لئے پیش
آئی کہ گمراہ ہوکر اتباعِ ہویٰ کا شکار نہ ہوجائے جبکہ ائمہ عظام سے پہلے کا دور
خیرالقرون کا دور تھا، وہاں لوگ اپنی مرضی چلانے کے بجائے صحابہ کرام سے
پوچھ لیتے تھے۔
شرعاً جائز یا ناجائز کام میں
ائمہ کا اختلاف کیوں؟
س…اکثر سننے میں آتا ہے کہ
فلاں کام فلاں امام کے نزدیک جائز ہے، لیکن فلاں کے نزدیک جائز نہیں۔ دینی اعتبار
سے کوئی بھی کام ہو دو باتیں ہی ممکن ہیں جائز یا ناجائز، لیکن یہاں بات مہمل سی
ہے، اصل بات بتائیں، میں نے پہلے بھی کئی ایک سے پوچھا مگر کسی نے مجھے مطمئن نہیں
کیا۔
ج… بعض امور کے بارے میں تو قرآن کریم اور حدیث نبوی (صلی اللہ
علیٰ صاحبہ وسلم) میں صاف صاف فیصلہ کردیا گیا ہے (اور یہ ہماری شریعت کا بیشتر
حصہ ہے) ان امور کے جائز و ناجائز ہونے میں تو کسی کا اختلاف نہیں، اور بعض امور
میں قرآن و سنت کی صراحت نہیں ہوتی، وہاں مجتہدین کو اجتہاد سے کام لے کر اس کے
جواز یا عدمِ جواز کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ علم و فہم اور قوتِ اجتہاد میں
فرق ایک طبعی اور فطری چیز ہے، اس لئے ان کے اجتہادی فیصلوں میں اختلاف بھی ہے،
اور یہ ایک فطری چیز ہے، اس کو چھوٹی سی دو مثالوں سے آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
ا:…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے
صحابہ کو
ایک مہم پر روانہ فرمایا اور ہدایت فرمائی کہ عصر کی نماز فلاں جگہ جاکر پڑھنا۔
نماز عصر کا وقت وہاں پہنچنے سے پہلے ختم ہونے لگا تو صحابہ کی
دو جماعتیں ہوگئیں، ایک نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں پہنچ کر نمازِ
عصر پڑھنے کا حکم فرمایا ہے، اس لئے خواہ نماز قضا ہوجائے مگر وہاں پہنچ کر ہی
پڑھیں گے، دوسرے فریق نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشائے مبارک تو یہ تھا
کہ ہم غروب سے پہلے پہلے وہاں پہنچ جائیں، جب نہیں پہنچ سکے تو نماز قضا کرنے کا
کوئی جواز نہیں۔
بعد میں یہ قصہ بارگاہ اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم میں پیش ہوا تو آپ نے دونوں کی تصویب فرمائی اور کسی پر ناگواری کا
اظہار نہیں فرمایا۔ دونوں نے اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق منشائے نبوی کی تعمیل کی
(صلی اللہ علیہ وسلم)، اگرچہ ان کے درمیان جواز و عدمِ جواز کا اختلاف بھی ہوا۔
اسی طرح تمام مجتہدین اپنی اجتہادی صلاحیتوں کے مطابق منشائے شریعت ہی کی تعمیل
کرنا چاہتے ہیں، مگر ان کے درمیان اختلاف بھی رونما ہوجاتا ہے، اور اس اختلاف کو
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ برداشت فرمایا، بلکہ اس کو رحمت
فرمایا، اور اس ناکارہ کو اس اختلاف کا رحمت ہونا اس طرح کھلی آنکھوں نظر آتا ہے
جیسے آفتاب۔
دوسری مثال:…ہمیں روز مرہ پیش
آتی ہے کہ ایک ملزم کی گرفتاری کو ایک عدالت جائز قرار دیتی ہے اور دوسری ناجائز،
قانون کی کتاب دونوں کے سامنے ایک ہی ہے، مگر اس خاص واقعہ پر قانون کے انطباق میں
اختلاف ہوتا ہے، اور آج تک کسی نے اس اختلاف کو “مہمل بات” قرار نہیں دیا۔ چاروں
ائمہ اجتہاد ہمارے دین کے ہائی کورٹ ہیں، جب کوئی متنازعہ فیہ مقدمہ ان کے سامنے
پیش ہوتا ہے تو کتاب و سنت کے دلائل پر غور کرنے کے بعد وہ اس کے بارے میں فیصلہ
فرماتے ہیں۔ ایک کی رائے یہ ہوتی ہے کہ یہ جائز ہے، دوسرے کی رائے یہ ہوتی ہے کہ
یہ ناجائز ہے، اور تیسرے کی رائے یہ ہوتی ہے کہ یہ مکروہ ہے، اور چونکہ سب کا
فیصلہ اس امر کے قانونی نظائر اور کتاب و سنت کے دلائل پر مبنی ہوتا ہے، اس لئے سب
کا فیصلہ لائق احترام ہے، گو عمل کے لئے ایک ہی جانب کو اختیار کرنا پڑے گا۔ یہ
چند حروف قلم روک کر لکھے ہیں، زیادہ لکھنے کی فرصت نہیں، ورنہ یہ مستقل مقالے کا
موضوع ہے۔
کوئی تبصرے نہیں :
ایک تبصرہ شائع کریں